ماہ صیام آتے ہی اہل فلسطین روزہ داروں کی افطاری جیسے کار ثواب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ شاید ہی کوئی فلسطینی شہر ایسا ہو جس میں غریبوں کی افطاری اور سحری کے لیے اہل خیر حضرات کی جانب سے باقاعدگی سے طعام کا انتظام نہ کیا جاتا ہو۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی روزہ داروں کی سہولت کے لیے دیگر شہروں کی طرح مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں قائم ’تکیہ نابلس‘ بھی ایک قابل ذکر مرکز طعام ہے۔
نابلس گورنری کا یہ سب سے بڑا لنگر خانہ ہے جہاں سے ضرورت مند شہریوں کی افطاری اور سحری کے لیے مفت کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔
لنگر خانہ نابلس کے منتظم ’ابوابراہیم‘ صبح چھ بجے لنگر خانہ پہنچ جاتے ہیں اور افطار تک مسلسل مصروف عمل رہتےہیں۔ یہاں پر تیار ہونے والے روز مرہ کے کھانوں میں تازہ گوشت،سبزیاں، مشروبات، چاول اور دیگر چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔
روزانہ سیکڑوں افراد کی کفالت
نابلس لنگرخانہ کے ایک عہدہدار اور زکواۃ کمیٹی کے چیئرمین سامح طبیلہ کا کہنا ہے کہ وہ علی الصباح مرغیاں ذبح کرنے کے بعد انہیں فرائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد چاول صاف کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پکانے کا سلسلہ سہہ پہر تین بجے تک جاری رہتا ہے۔ ان کے ساتھ اس کام میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی معاونت کرتی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لنگر خانے کا مینیو تبدیل کرتے رہےہیں۔ چاول، سبزیاں، سبزیوں کا شوربہ، فلسطین کی روایتی کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس طرح وہ یومیہ بارہ سو افراد کا کھانا تیار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ ماہ صیام میں روزہ داروں کے لیے افطار اور سحر کا انتظام کرنے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔
مخیر حضرات لنگر خانہ کی ریڑھ کی ہڈی
نابلس کے ایک مخیر اور امدادی کارکن اسامہ حمامی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اہل خیر کی طرف سے تعاون اس طعام گاہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’رحمان دسترخوان‘ کا آغاز نابلس کی زکواۃ کمیٹی کی جانب سے سنہ 2012ء میں کیاگیا تھا۔ سنہ 2014ء میں اسے ’تکیہ نابلس‘ یا نابلس کا لنگر خانہ کے نام سے جانا جانے لگا۔
للحام نے کہا کہ ان کا ہدف یومیہ 1200 افراد سے بڑھا کر 1500 تک کرنا ہے اور پورے ماہ صیام میں 35 ہزار کھانے فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تکیہ نابلس کو مقامی سطح پر اہل خیر کا تعاون بھی حاصل ہے۔ ماہ صیام کے موقع پر شہری بڑھ چڑھ کر ماہ مقدس کی فضلیت کے پیش نظر مالی تعاون کرتے ہیں۔
رضا کاروں کی خدمات
تکیہ نابلس میں علی الصبح ہی سے شہری رضاکارانہ طور پرخدمات انجام دینا شروع کردیتے ہیں۔ خاص طور پر تقسیم کے وقوت رضاکاروں کی تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔ چاول، شوربا، سالن، روٹیاں اور دیگر اشیاء کی تقسیم کے لیے دسیوں رضاکاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں افراد کار کی تعداد زیادہ ہو وہاں صفائی کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ تمام رضاکار نہایت سلیقے اور صفائی کے ساتھ طعام تقسیم کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک خاندان کے ایک ہی فرد کو جو عموما سربراہ خانہ ہوتا ہے کو گھر کے تمام افراد کے حساب سے کھانا فراہم کیاجاتا ہے۔
تکیہ نابلس پررضاکارانہ خدمات انجان دینے والے عبدالھادی الخاروف کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے چار سال سے لنگر خانہ پراپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رش کے اوقات میں لوگوں کو زیادہ صبر اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور کھانے کے حصول کے لیےآنے والے تمام احباب اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
یونیورسٹی کے طالب علم محمد نبیل الفار کا کہنا ہے کہ وہ عمل خیر کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اس وقت تکیہ نابلس کو زیادہ سے زیادہ مخیر حضرات کی ضرورت ہے تاکہ اس لنگر خانہ سے زیادہ سے زیادہ ضرورت مند مستفید ہوسکیں۔
غریبوں کی امیدوں کا مرکز
لنگر خانہ مستفید ہونے والے ایک معمر شہری نے بتایا کہ ماہ صیام میں نابلس کا لنگر خانہ ان کی امیدوں کا واحد مرکز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی سات بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ایک کو حال ہی میں اس کےشوہر نے طلاق دے دی جس کےبعد وہ بھی اب ان کے گھرپر ہے۔ ان کی تمام بیٹیاں ان کے گھر ان کی امانت ہیں۔ ان کے تمام اخراجات انہی کے ذمہ ہیں۔ تمام بچیوں اور ان کی اولاد کی نگہداشت ان پر بوجھ ہے مگر تکیہ نابلس ان کے اس بوجھ کو کم کرنے میں معاون و مدد گار ہے۔
لنگر خانہ سے مستفید ہونے والے ایک دوسرے شہری نے کہا کہ وہ ایک عام مزدور ہے۔ اس کی بیشتر آمدن بوڑھی اور مریض والدہ کی ادویہ کی خریداری پر صرف ہوجاتی ہے۔ ماہ صیام میں تکیہ نابلس ان کا ایک بڑا سہارات ہے۔ ان کی خواہش ہے تکیہ نابلس اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔