جمعه 15/نوامبر/2024

’جب مسلح صہیونی جتھے فلسطینی آبادی میں پھیل گئے‘

منگل 22-مئی-2018

سنہ 1948ء کے دوران جب ارض فلسطین پر قابض اور غاصب صہیونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس وقت کے عینی شاہدین فلسطینیوں میں زیادہ تر اب انتقال کرچکے ہیں۔ غریب الوطنی اور صہیونیوں کے مظالم کا دکھ دلوں میں رکھنے والے جو فلسطینی زندہ ہیں وہ اس کرب اور قیامت کو نہیں بھلا سکے۔

مسلح صہیونی جتھوں کےحملوں کے باعث ھجرت پر مجبور ہونےوالوں میں ایک فلسطینی خاتون الحاجہ خیریہ اسعد عبدالرحمان وھدان حنون بھی ہیں۔ انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے جبری ھجرت کے واقعات بیان کیے۔

خیریہ عبدالرحمان حنون اس وقت غرب اردن کے شمالی شہر جنین میں ایک پناہ گزین کیمپ میں ہیں۔ انہیں اس بات کا دکھ ہے وہ زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے آبائی شہر سےدور مختلف کیمپوں میں کاٹنے پر مجبور ہوئیں مگر اپنے پوتوں اور نواسوں کو یہ بات فخر سے بتاتی ہیں کہ جب صہیونی جتھوں ان کے گھروں پر کیڑے مکوڑوں اور ٹڈل دل لشکر کی طرح یلغار کی تو اس کا مقابلہ کرنےوالوں میں وہ بھی شامل تھیں۔

الحاجہ خیریہ نے بتایا کہ ان کا  آبائی شہر زرعین تھا، النکبہ کے سال سے قبل جب مسلح یہودی دہشت گردوں نے آس پاس کی بستیوں کا صفایا کرنے کے بعد ان کے قصبے پر دھاوا بولا تو پہلے ساری آبادی نے ہتھیار ڈالنے کے لیے سفید پرچم لہرانے سے انکار کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ مسلح صہیونیوں کی آمد سے چند روز قبل ہمارے پاس ان کی طرف سے پیغام رساں بھیجے گئے جنہوں نے ہمیں کہا کہ ہم صہیونیوں کے ساتھ سفید پرچم اٹھا کر گھٹنے ٹیک دیں مگر گاؤں کے تمام مردو زن نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ سب نے کہا کہ ہم اپنی اراضی کسی اور کو نہیں دیں گے۔

ھجرت کی المناک یادیں

الحاجہ خیریہ نے بتایا کہ ہمارے انکار پر صہیونیوں کے مسلح جتھے’ہاگانا‘نے زرعین کی طرف آنے والی ریلوے لائن پرگھات لگا کر حمللہ کیا اور اس میں سوار سیکڑوں نوجوانوں کو اتار کر ذبح کردیا گیا۔ اس واقعے نے زرعین کی آبادی کو مزید مشتعل کردیا مگر ہمارے پاس لڑنے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہم ڈٹ گئے۔ جب مسلح صہیونی ان کے گاؤں میں داخل ہوئے تو یہ عصر کا وقت تھا۔ اسرائیلی ٹینکوں پر سوار تھے۔ انہوں نے گاؤں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ گاؤں نے نوجوانوں اور عورتوں نے صہیونیوں پر سنگ باری شروع کردی مگر کچھ ہی دیر میں صہیونی چاروں اطراف سے ان کے گاؤں میں ایک ایک گھر میں کیڑوں کی طرح داخل ہوگئے۔ وہ نوجوانوں کو پکڑتے اور گرفتار کرتے جاتے اور جو مزاحمت کی کوشش کرتا اسے گولی مار کر شہید کردیا جاتا۔ اس دوران کئی خواتین، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ ہمیں شہید ہونے والوں کے جسد خاکی بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہمارے گھروں کو ہمارے سامنے آگ لگا دی گئی۔

اس کے بعد راتوں رات ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر دوسرے علاقوں میں لانے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران عرب فوجیوںمزا حمت کی۔ عرب لشکر کی کارروائی مین ہاگانا صہیونی گروپ کا ایک کمانڈر مارا گیا۔ اس واقعے کے بعد صہیونی مافیا پسپا ہوگیا اور ہم نے واپس اپنے گھروں کی طرف پلٹ کر شہید ہونے والوں اور زخمیوں کی تلاش شروع کردی۔

اگلی صبح صہیونیوں کی طرف سے پیغام دیا گیا کہ عرب لشکر اور زرعین کی پوری آبادی وہاں سے نکل جائے ورنہ دیر یاسین کی طرح ایک ایک بچے کو قتل کردیا جائے گا۔ بدقسمتی سے عرب لشکر کو اس کے سربراہ کی طرف سے زرعین سے نکل جانے کے احکامات دیے گئے جس کےبعد ہم بالکل نہتے ہوگئے تھے۔ خیریہ کہتی ہیں ہمارا خاندان جن میں ہماری دادی شامل تھیں الجلمہ کی طرف روانہ ہوگئے جہاں ہماری ایک خالہ رہ رہی تھیں۔

نہ ختم ہونے والی ھجرت

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم 10 روز الجلمہ میں اپنی خالہ کے پاس رہے۔ وہاں سے ہمارے والد جو اب تک ہم سے نہیں سکے تھے پہنچنے کے بعد ہمیں  قباطیہ کے لے آئے۔ صہیونی جتھے ہاگانا نے ہمارا جنین تک پیچھا گیا مگر زرعین کے معرکے میں عراقی فوج نے صہیونیوں کا جم کر مقابلہ کیا۔

الحاجہ خیریہ کا کہنا ہے کہ ہمیں مسلسل دھوکہ دیا جاتا رہا کہ ھجرت کا عرصہ بہت تھوڑا ہے اور ہم جلد ہی اپنے علاقوں اور گھروں کو روانہ کردیے جائیں گے مگر بد قسمتی سے ہمیں واپس نہیں بھیجا گیا اور ھجرت طول پکڑتی چلی گئی۔

ھجرت کے 70 سال گذرنے کے باوجود الحاجہ خیریہ اپنے وطن واپسی سے مایوس نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی آنے والی نسلیں بھی حق واپسی کی جدو جہد جاری رکھیں گی۔  اگر ہم واپس اپنے گھروں کو نہیں جاسکے تو کوئی بات نہیں مگر ہماری آنے والی نسلیں ضرور اپنے علاقے آباد کریں گی۔

مختصر لنک:

کاپی