سرزمین فلسطین اہل خیر کی سرزمین کہلاتی ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیرسے نیچے زندگی بسرکرتی ہےمگرقناعت پسندی اس کی گھٹی میں شامل ہے۔ پڑوسی ایک ایک دوسرے کاخاص خیال رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غربت کے باوجود کوئی شخص رات کوبھوکا نہیں سوتا۔
اہل خیر کی انفرادی مساعی کے ساتھ ساتھ ضرورت مندوں اور محتاجوں کی حاجت گیری کے لیے فلسطین کے چپے چپے پرمفت طعام گاہیں”لنگرخانے” قائم ہیں۔ انہی ہیں مقبوضہ مغربی کنارے کے الخلیل شہرمیں "آستانہ ابراہیمی” بھی شامل ہے۔ یہ لنگرخانہ جلیل القدر پیغمبر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے جو نیا نہیں بلکہ مشہور مسلمان سپہ سالار اور فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی کے دورسے چلا آ رہا ہے۔
"آستانہ ابراہیمی” سے پورے سال روزانہ کی بنیاد پرضرورت مند لوگوں کو کھانا مہیا کیا جاتا ہے لیکن ماہ صیام میں آستانے سے کھانا حاصل کرنے والوں کا رش غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ چونکہ لنگرسے ماہ صیام میں سحری اور افطاری دونوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اس لیے یہاں سے کھانا حاصل کرنے والوں کی قطاریں بہت پہلے لگ جاتی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے اپنی ایک رپورٹ میں "آستانہ ابراہیمی” کےحالات حاضرہ اور تاریخ پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔
الخلیل شہر کی تاریخ 3800 سال پرانی ہے مگر شہر میں یہ تاریخی دستر خوان اور لنگر صلاح الدین ایوبی کے زمانے کے سلطان قالون الصالحی نے 1279ء میں قائم کیا۔
آستانہ ابراہیمی الخلیل کی تاریخی جامع مسجد ابراہیمی کے پہلو میں قائم ہے۔ یہاں سے ماہ صیام میں روزانہ 06 ہزار افراد کے لیے افطار اور چار ہزار افراد کے لیے سحری کا انتظام کیا جاتا ہے۔ عام دنوں میں بھی لنگر جاری رہتا ہے جس سے یومیہ چار سو گھرانے مستفید ہوتے ہیں۔ آستانہ ابراہیمی کا انتظامی کنٹرول فلسطینی محکمہ اوقاف کے پاس ہے تاہم اس کے لیے فنڈز عام مخیر حضرات دیتے ہیں۔ ماہ صیام میں یہاں سے روزانہ گوشت،شوربہ، چاول اور روٹی مہیا کی جاتی ہے۔
دور ایوبی سے جاری لنگر
جواد النتشہ کی عمر52 سال ہے۔ وہ پچھلے 14 سال سے آستانہ ابراہیمی میں باورچی کے طور پرخدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ اپنے کام کا اظہار نہایت فخر کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آستانہ ابراہیمی فقیروں، ناداروں اور مسافروں کا آخری ٹھکانہ ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے جواد النتشہ نے بتایا کہ میں روزانہ علی الصباح یہاں پہنچ جاتا ہوں اور آدھی رات تک کام کرتا ہوں۔ مجھے ماہ صیام میں کم سے کم 1000 کلو گرام گوشت پکانا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جس طرح یہاں کھانا اہل خیر خضرات کی جانب سے مفت فراہم کیا جاتا ہے اسی طرح یہاں پرکام کرنے والے رضاکار بھی بغیر معاوضے کے کام کرتے ہیں۔ کھانا پکانے اوراسے تقسیم کرنے والے الگ الگ ہیں۔ لوگ قطاروں میں لگ کرکھانا حاصل کرتے ہیں جو انہیں کھڑکیوں سے دیا جاتا ہے۔
آستانے کے منتظم عمار الخطیب نے بتایا کہ یہ لنگر ابراہیمی مشہور مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کے دور سے جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دور ایوبی میں فلسطین میں ایسے کئی مراکز قائم کیے گئے تھے جو اسلام کی دعوت وتبلیغ کے مراکز ہونے کے ساتھ ساتھ ضرورت مندوں کے لیے کھانے پینےاور رہائش کا بھی بندوبست کرتے تھے۔ انہی میں آستانہ ابراہیمی بھی شامل تھا۔
خلافت عثمانیہ کے دور میں بھی یہ لنگر نہ صرف جاری رہا بلکہ اسے مزید وسعت دی گئی۔ عثمانی خلفاء فلسطین میں آستانوں اور لنگر خانوں کا بڑی توجہ کے ساتھ اہتمام کرتے تھے۔ انہی کے دور میں بیت المقدس میں باب فرید الدین گنج شکر کا آستانہ بنا۔ اس کے علاوہ عثمانی خلیفہ سلطان سلیمان خان کی روسی نژاد ملکہ خاصکی سطان کے نام سے بنا لنگر آج تک جاری و ساری ہے۔
عمار الخطیب نے بتایا کہ آستانہ ابراہیمی سے سال بھر لنگر جاری رہتا ہے۔ صرف عیدالفطر اور عیدالاضحی کے ایام میں تعطیل کی جاتی ہے۔ ہفتے میں دو دن گوشت اور باقی ایام میں دیگر کھانے بنائے جاتے ہیں۔
الخطیب نے لنگرخانے کے مخیرحضرات کے نام ظاہر کرنے سے گریز کیا تاہم انہوں نے بتایا کہ ماہ صیام میں روزانہ چھ سے سات ہزار افراد کھانا حاصل کرتے ہیں۔
اسرائیل پابندیاں
آستانہ ابراہیمی جہاں ہزاروں ضرورت مندوں کا ماویٰ ہے وہیں اس مرکز کو یہودیوں کی جانب سے عاید پابندیوں کی وجہ سے ہمہ نوع مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ آستانے کے ڈائریکٹر محمد سلھب نے بتایا کہ پچھلے کچھ عرصے سے یہاں سے کھانا حاصل کرنے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے تاہم اہل خیر کی تعداد بھی بڑھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تکیہ ابراہیمی میں 14 افراد مستقل ملازم ہیں اور کئی افراد رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔ آستانے اور لنگرکا انتظام وانصراف فلسطینی پولیس کی نگرانی میں ہوتا ہے جو ضرورت مندوں کو منظم انداز میں کھانا مہیا کرنے میں مدد کرتی ہے۔ چونکہ آستانہ ایک پرانی عمارت میں قائم ہے اس لیےانتظامیہ کو جگہ تنگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ایک طرف اسرائیلی فوج کا ایک کیمپ اور دوسری جانب ایک یہودی کالونی قائم ہیں۔
انتظامیہ اب آستانے کے لیے ایک نئی عمارت کی تعمیر کے بارے میں سوچ رہی ہے مگراس سوچ پرعمل درآمد کی راہ میں پھر اسرائیل حائل ہوجاتا ہے کیونکہ وہاں پرتعمیراتی سامان لانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
کچھ عرصہ قبل آستانے کی نئی عمارت کی تعمیر کا کام شروع بھی کیا گیا تھا جسے ترکی کی فلاحی ایجنسی”تیکا” کا تعاون بھی حاصل تھا لیکن اسرائیلی فوج نے دو سال قبل کام روک دیا۔ ترک تنظیم کی جانب سے اب بھی نئی عمارت کے لیے فنڈز کا اعلان کیا گیا ہے اسرائیل کی جانب سے اجازت نہیں ہے۔