جمعه 15/نوامبر/2024

گوئٹے مالا نے بھی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیا

جمعرات 17-مئی-2018

گوئٹے مالا کی حکومت نے بھی امریکی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔

گوئٹے مالا کی حکومت کی طرف سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب 14 مئی 2018ء کو امریکی حکومت نے بیت المقدس میں اپنے سفارت خانے کا افتتاح کیا تھا۔ اس اقدام پر عالم اسلام اور عالمی برادری کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی باج گزار اور صہیونیت نواز گوئٹے مالا کی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے کل بدھ سے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔

خیال رہے وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا بھی مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کی امریکی سازش میں صہیونیوں اور امریکیوں کے ساتھ مل گیا ہے۔ چند روز قبل جمہوریہ گوئٹے مالا کے صدر جمی موریلس نے اسرائیل میں موجود اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس  منتقل کرنے کا حکم دیا  تھا۔

اکیس دسمبرکو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے وہ قرارداد منظور کی تھی جس میں امریکا سے کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے۔ اس قرارداد کے بعد گوئٹے مالا پہلا ملک ہے جس نے کھلم کھلا اس قرارداد کی توہین کی ہے۔

اس قرارداد کے حق میں 129 ممالک نے ووٹ دیا، 35 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ نو نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ فیس بک پوسٹ میں صدر جمی موریلس نے کہا کہ انھوں نے یہ فیصلہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے بات کرنے کے بعد کیا ہے۔

گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں امریکا کی القدس سے متعلق قراداد کے حق میں ووٹ دینے والے فقط سات ممالک میں سے ایک گوئٹے مالا بھی تھا۔ اس موقع پر صدرٹرمپ نے مخالفت کرنے والے ممالک کو امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ وسطی امریکا کے غریب ملک گوئٹے مالا کو امداد دینے والے اہم ممالک میں امریکا بھی شامل ہے۔

اتوار کو اپنے بیان میں صدر مویلس نے کہا کہ انھوں نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ ملک کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے سے پہلے ضروری اور متعلقہ اقدامات کر لیں۔  انھوں نے یہ بھی کہا کہ گوئٹے مالا اسرائیل کا دیرینہ دوست ہے۔

اقوام متحدہ میں مختلف ممالک کے سفیروں نےالقدس کواسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کے خلاف جنرل اسمبلی میں قرارداد منظور ہونے کے بعد کہا تھا کہ امریکا کو ایسا فیصلہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

مختصر لنک:

کاپی