پاکستان نے امریکا کی جانب سے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
منگل کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے اپیلوں کے باوجود امریکا کی جانب سے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنا باعثِ تشویش ہے۔ ترجمان نے فلسطین کے عالقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی پرامن مظاہرین کے خلاف وحشیانہ کارروائیوں کو صہیونی ریاست کی کھلی بربریت قرار دیا۔
بیان میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا کا یہ اقدام عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے منافی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور پاکستان فلسطین کی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے لیے اپنے عزم کی بھی تجدید کرتا ہے جو متفقہ عالمی معاہدوں اور 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ہو اور جس کا دارالحکومت "القدس الشریف” ہو۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوان امریکہ کی طرف سے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف قرادار منظور کر چکے ہیں جن میں امریکا سے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
امریکی حکام صڈر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ اس سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن عمل متاثر نہیں ہو گا، لیکن اس فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر شدید ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
فلسطینی بیت المقدس کے مشرقی حصے کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں جب کہ اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور عالمی برداری کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ القدس کے مستقبل کا فیصلہ فلسطینیوں کے ساتھ امن بات چیت میں طے ہونا چاہیے۔
امریکا اور لاطینی امریکا کے دو چھوٹے ملکوں کے علاوہ کسی دوسرے ملک نے اب تک یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔
سفارت خانہ منقتل کرنے کے امریکی صدر ڈونلڈ کے فیصلے پر واشنگٹن کے عرب اتحادیوں کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔