فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں حق واپسی کے لیے پرامن احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کا وحشیانہ تشدد جارہی ہے جس کے نتیجے میں مزید متعدد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جس کے بعد گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران شہداء کی تعداد 60 ہوگئی ہے اور قریبا تین ہزار کے قریب زخمی ہیں۔
مظاہروں کے دوران فلسطینیوں نے ٹائر جلائے اور اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ کیا اور پیٹرول بم پھینکے جبکہ فوجی نشانے بازوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔
اطلاعات کے مطابق سوموار کو لاکھوں فلسطینی غزہ کی مشرقی سرحد پر جمع ہوئے اور حق واپسی مارچ شروع کیا۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر آتشیں گولیاں چلائیں۔ کم سے کم 58 فلسطینیوں کی شہادتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ 2800 زخمی ہیں۔
زخمیوں میں 225 بچے، 80 خواتین،12 صحافی، 17 طبی امدادی کارکن شامل ہیں۔54 کی حالت انتہائی خطرناک،76 کی خطرناک اور 1300 کو درمیانے درجے کے زخم آئے ہیں۔90 فلسطینیوں کو سر اور گردن میں گولیاں ماری گئیں جب کہ 192 فلسطینی مظاہرین کے جسم کے بالائی حصے کو نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب فلسطین میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں کی پوری دنیا میں شدید مذمت جاری ہے۔ آج منگل کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے جس میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ تشدد پرغور کیا جائےگا۔
ادھر فلسطینی صدر محمود عباس نےغزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے قتل عام کو اسرائیل کی بربریت قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے قتل عام کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطنینی صدر محمود عباس نے صدر ٹرمپ کے سفارتخانے کو منتقل کرنے کے فیصلے کو ‘صدی کا تھپڑ’ قرار دیا ہے۔