جمعه 15/نوامبر/2024

امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی، آگے کیا ہونے والا ہے؟

پیر 14-مئی-2018

آج فلسطین کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ یہ دن فلسطینی قوم کے لیے منحوس یادوں کو لیے بار بار آتا ہے۔ اس روز ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کا ناسور قائم کیا گیا۔ آج ہی کے روز یعنی آج 14 مئی 2018ء کو فلسطینی قوم کے ساتھ ایک اور ظلم کیا جا رہا ہے۔اس ظلم کا اصل محرک امریکا ہے جو اسرائیل میں قائم اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کررہا ہے۔

امریکی سفارت خانے کہ بیت المقدس منتقلی کے بعد فلسطین میں کس طرح کی تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے۔ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ اس پر مرکز اطلاعات فلسطین نے تجزیہ نگار علاء الریماوی کے الفاظ کو مستعار لیا ہے۔

الریماوی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا اور اس کے بعد تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے تمام اقدامات میں بعض عرب ممالک نے امریکا اور اسرائیل کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔

حالیہ ایام میں عرب ممالک کی طرف سے امریکی اور اسرائیلی اقدامات پر جس طرح کی خاموشی برتی گئی اس نے ان عرب حکومتوں کی بدنیتی واضح کردی ہے۔ تاہم فلسطین کی سطح پر آنے والے دنوں میں سخت بھونچال کا امکان ہے۔ امریکی سفارت خانے کی منتقلی فلسطین میں تشدد کی ایک نئی لہر کو جنم دے سکتی ہے۔ فلسطینیوں کی شہادتوں اور کریک ڈاؤن میں ان کی گرفتاریوں میں اضافے کا امکان ہے۔

ذیل میں سفارت خانے کی القدس منتقلی کے علاقائی اثرات اور نتائج کا تجزیہ پیش ہے۔

عرب ممالک

عرب ممالک کا مسئلہ فلسطین کے ساتھ براہ راست اور گہرا تعلق ہے مگر افسوس کا امر یہ ہے کہ عرب حکومتوں کی طرف سے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی روکنے کے لیے جس طرح کے ٹھوس اور جاندار موقف اپنانے کی ضرورت تھی وہ انہیں اپنایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکا اور صہیونیوں کو اپنے اس مذموم پلان کو آگے بڑھانے کا حوصلہ ملا۔

بعض ممالک کی طرف سے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تحفظات کے اظہار نے بھی امریکیوں کو اس فیصلے پر نظرثانی پر مجبور نہیں کیا۔ اردن کی طرف سے بار بار شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر امریکا ایسا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس کے نتیجے میں مزید خون خرابہ ہوسکتا ہے۔

مصر اور خلیجی ملکوں کا موقف تقریبا ایک ہی ہے۔ یہ ممالک بہ ظاہر حالات کو پرسکون رکھنے کی کوشش کرتےہیں مگر انہوں نے امریکا کے اس پلان کو روکنے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال نہیں کیا۔ ان کی طرف سے فلسطین میں کشیدگی کے بڑھنے کے امکانات کے سوا اور کوئی خاص بات نہیں کی گئی۔بعض ذرائع تو یہ بتاتے ہیں کہ موثر خلیجی ممالک در پردہ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ہیں۔

البتہ مصر کی طرف سے فلسطینیوں بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے ساتھ رابطوں میں تیزی لائی گئی ہے۔

غرب اردن اور القدس

امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے اعلان کے بعد فلسطین کے دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ آج غرب اردن کے شہروں رام اللہ ، بیت لحم، نابلس اور دوسرے مقامات پر اسرائیلی کالونیوں اور فلسطینی آبادیوں کو ملانے والے مقامات پر فلسطینیوں کے بھرپور احتجاج کا امکان ہے۔ الخلیل اور دوسرے شہروں میں اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوسکتی ہیں۔

القدس میں فلسطین سپریم عرب فالو اپ کمیٹی نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کی کال دی ہے۔ اگرچہ اسرائیلی فوج کی طرف سے القدس میں ہائی الرٹ کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے احتجاج کے لیے گھروں سے نکلنے کے امکانات  ہیں۔

سیاسی محاذ پر فلسطینی اتھارٹی نے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کو مسترد کردیا ہے۔

غزہ

غزہ میں حماس اور دوسرے فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے ایک عظیم الشان ملین مارچ کا اعلان کیا ہے۔ حماس اور دوسری تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ آج چودہ مئی کو نام نہاد سرحد کو عبور کرکے فلسطین کے اندر داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے طاقت کا استعمال کیاجاسکتا ہے۔

اسرائیل اور رد عمل

آنے والے دنوں میں بھی فلسطین میں صہیونی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا امکان ہے۔ صہیونی فوج نے نہتے فلسطینی مظاہرین کو طاقت کے ذریعے کچلنے کا عزم کررکھا ہے۔ غزہ کی مشرقی سرحد خاص طورپر کشیدگی کا شکار ہوسکتی ہے۔

البتہ مصر کی جانب سے غزہ کی پٹی پر عاید کردہ پابندیوں میں نرمی کا امکان ہے۔ اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں کو مصر کی طرف سے کچھ مالی سہولیات مل جائیں جس کے نتیجے میں صہیونی ریاست پر دباؤ کم کیا جاسکتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی