اسرائیلی جیلوں میں قید کیے گئے 500 انتظامی فلسطینی قیدیوں نے مسلسل 90 دن سے اسرائیلی عدالتوں کا بائیکاٹ جاری رکھا ہوا ہے۔
ادھر فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر غسان قدومی نے صہیونی ریاست کی فلسطینی اسیران کے حوالے سے پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینی اسیران کے بنیادی حقوق کا ہولوکاسٹ کر رہا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست فلسطینی اسیران کے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی مرتکب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی انتظامی قیدیوں کی طرف سے اسرائیلی عدالتی بائیکاٹ نے صہیونی ریاست کے مکروہ چہرے کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی محکمہ امور اسیران کا کہنا ہے کہ انتظامی بنیادوں پر قید کئے گئے پانچ سو فلسطینی اسیران نے 15 فروری کو اسرائیلی عدالتووں کا بہ طور احتجاج بائیکاٹ کیا تھا۔ بائیکاٹ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
محکمہ اسیران کے مطابق انتظامی پالیسی کے تحت قید کیے گئے فلسطینیوں نے اپنے ساتھ برتے جانے والے نا روا رویے اور بلا جواز انتظامی قید میں بار بار کی توسیع کے خلاف دو ماہ قبل احتجاجا عدالتوں کا بائیکاٹ کیا تھا۔ بائیکاٹ کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
فلسطینی محکمہ امور اسیران کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل فلسطینیوں کا معاملہ انسانی ہے اور اسے انسانی اور قانونی بنیادوں پر فوری حل ہونا چاہیے۔ کئی فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ وہ زخمی اور بیمار ہونے کے باوجود طبی سہولیات سے محروم ہیں اور ساتھ ہی انہیں مسلسل بغیر کسی وجہ کے پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو عام شہریوں کو منصفانہ ٹرائل سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ نام نہاد انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل رکھنے کے حربے استعمال کررہا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید رجسٹرڈ فلسطینیوں کی تعداد 7000 ہے جب 450 فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام کے محض شبے کی بنیاد پر انتظامی پالیسی کے تحت کیا گیا ہے۔ انتظامی قید کی سزا دو ماہ سے شروع ہوتی ہے اور اس میں غیرمعینہ مدت کے لیے بار بار توسیع کی جاتی ہے۔ بعض فلسطینی گذشتہ دس سال سے انتظامی قید کی پالیسی کے تحت پابند سلاسل ہیں۔