جمعه 15/نوامبر/2024

کیا ایران اور اسرائیل میں جنگ بھڑک اٹھی؟

اتوار 13-مئی-2018

حال ہی میں شام کے محاذ پر اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی۔ گوکہ روایتی جنگوں کا دور اب گذر چکا ہے۔ اب کوئی بھی جنگ ماضی کی جنگوں کی نسبت زیادہ خوفناک اور تباہ کن ہوسکتی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے خطرات، اس کے اسباب وعوامل اور محرکات پر روشنی ڈالی ہے۔

اس سے قبل عراق اور ایران کے درمیان آٹھ سال تک جاری رہنے والی خلیج جنگ، سنہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ اور پہلی اور دوسری عالم جنگیں بھی روایتی ہونے کے باوجود وسیع پیمانے پر انسانی تباہی کا موجب بنیں۔ دوسری جنگ میں تو باقاعدہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔

روایتی جنگی ہتھیاروں اور جدید تباہ کن اسلحہ کے درمیان کوئی تقابل نہیں۔ تباہ جوہری بم کو بھی روایتی اسلحہ میں شامل کیا جا رہا ہے مگر عالمی سطح پر اس کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے جنوب، الشجاعیہ، عراق کے شہر موصل، شام کے حلب، حمص، حماۃ، یرموک کیمپ، افغانستان کے گروزنی، اس سے قبل جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر جنگوں کے دوران ممنوعہ ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔

ماضی کی نسبت عالمی نظم و نسق دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے زیادہ پیشہ وارانہ ہے۔

اس وت عالم گیریت[گلوبلائزیشن] کا دور ہے۔ عالم گیریت بھی کسی ملک کو چاہے وہ علاقائی اور عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کر رہا ہو اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ حالانکہ بعض ممالک اندرونی خانہ جنگی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ جنگوں میں بھی الجھتےہیں، پراکسی وار لڑتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی تعلقات اور دو طرفہ تجارت بھی جاری رکھتے ہیں۔ اس کی ان گنت مثالی موجود ہیں۔

ذرائع ابلاغ کا بھی عالمی سطح پرممالک کے درمیان تعلقات کے اتار وچڑھاؤ میں اہم کردار تصور کیا جاتا ہے۔ دور حاضر میں ابلاغیات کو بین الممالک تعلقات کے باب میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ میڈیا کے ذریعے لوگ امن وامان کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کو جانتے ہیں۔ حکومتوں کو جنگوں میں الجھنے کے لیے اپنی رائے عامہ کا بھی احترام کرنا پڑتا ہے۔ تاہم رائے عامہ ہموارکرنے میں میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے۔

میڈیا دو حریف ممالک کے درمیان ثالث اور رابطہہ کار کا بھی کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا ہی غلط فہمیاں پیدا کرتا اور بعض اوقات انہیں دور کرنے میں مدد گار ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہم حریف ممالک کی ایک دوسرے کےخلاف پالیسیوں کو سمجھتےہیں۔ سوویت یونین کے دور میں سرخ ٹیلی ویژن اور امریکا کے درمیان سرد جنگ میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی ترقی نے جنگوں کا ایک اور پہلو بھی عوام کے سامنے واضح کیا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہم جانتے ہیں کہ کوئی ملک دوسرے کے خلاف جنگ کے دوران کتنا پیسہ خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اگر ممکنہ جنگ کے اخراجات بہت زیادہ ہوں تو عوام حکومتوں پر جنگ سے دور رہنے کے لیے دباؤ بھی ڈال سکتی ہے۔ حتیی کہ ایسا غیر جمہوری ممالک میں بھی ممکن ہے۔

اکیسویں صدی میں انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کو بھی غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ روایتی اور غیر روایتی جنگوں میں الجھنے والے ممالک اور حکومتوں کو انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے سخت تنقید اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے جنگوں کے دوران ہونے والی نا انصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو منظرعام پرلاتےہیں جس سے حکومتوں پر دباؤ بڑھتا ہے۔

روایتی جنگوں کا سفر اب چوتھی نسل کو منتقل ہو رہا ہے۔ اس دور میں دہشت گردی، مافیا، گوریلا وار اور پراکسی وار بھی جنگوں کی مختلف شکلیں ہیں۔

یہ تمام وہ اسباب ہیں جو اسرائیل اور ایران سمیت کسی بھی دوسرے ملک کو ہزار بار یہ سوچنے پر مجبور کریں گے کہ وہ جنگ میں الجھ کر کتنے فائدے اور کتنے نقصان میں رہیں گے۔ آج کے دور میں غیر روایتی جنگ کا اعلان جتنا کہنا آسان ہے اتنا اس سے نمٹنا مشکل ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو کسی حریف یا مخالف طاقت کے خلاف طبل جنگ بجائے۔

جہاں تک ایران کا معاملہ ہے تو ہم اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ تہران نے ضبط نفس سے کام لیا ہے۔ اشتعال انگیزی کی راہ اپنانے کے بجائے معاملات کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کی۔ اگرچہ دنیا یہ کہتی ہے کہ ایران چپکے سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔ ایران معاشی طورپر کمزور سہی مگر اس کے پاس ایک طاقت ور فوج اور اسلحہ موجود ہے جو کسی بھی دشمن کو سخت تھپبڑ لگانے کی پوزیشن میں ہے۔

مختصر لنک:

کاپی