اقوام متحدہ نے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی فوج کی انتقامی کارروائیوں اور علاقے کی ناکہ بندی کو بدترین ظلم قرار دیتے ہوئے محصورین غزہ کے خلاف جاری مظالم بند کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ غزہ میں پرامن اور نہتے مظاہرین کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کرنا اور ممنوعہ اسلحہ سے انہیں منتشر کرنے کا کوئی آئینی اور اخلاقی جوازنہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے عوام کئی سال سے بدترین ناکہ بندی کا سامنا کررہےہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران فلسطینیوں نے تحریک حق واپسی کے لیے پرامن مظاہرے شروع کیے ہیں اور اسرائیل ان پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا بے تحاشا استعمال کررہا ہے جس کے نتیجےمیں بے گناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر ’اوچا‘ کی طرف سے جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں پرامن فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتی ہے۔ فلسطینی تحریک حق واپسی کا آج ساتواں جمعہ ہے۔ خدشہ ہے کہ اسرائیلی فوج آج بھی غزہ کی مشرقی سرحد پر جمع ہونے والے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کرسکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے دو ملین فلسطینی گذشتہ بارہ سال سے بدترین ناکہ بندی کا سامنا کررہے ہیں۔ غزہ کی ناکہ بندی غیرقانونی اقدام ہے۔ یہ ظلم کی ایک بدترین شکل ہے۔ اسے فوری طورپر ختم کیا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ 30 مارچ کے بعد سے غزہ کی پٹی میں جاری حق واپسی تحریک کے دوران اب تک 53 فلسطینی مظاہرین شہید اور 8 ہزار سے زاید زخمی ہوچکے ہیں۔