ارض فلسطین میں چپے چپے پر پھیلے صہیونی فوجیوں کی وجہ سے صحافت کا پیشہ بھی انتہائی خطرناک شکل اختیار کر گیا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ پیشہ کانٹوں کی سیج بن چکا ہے۔
فلسطین میں صحافت کے پیشے سے وابستہ کارکنوں کی مشکلات کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ 28 سالہ معذور صحافی خذیفہ محمود ابو ھین اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
چند ہفتے پیشتر اسرائیلی فوج نے گولیاں مار کر ابو ھین کو ایک ٹانگ سے معذور کردیا تھا۔ انہیں اس وقت گولیاں ماری گئیں جب وہ غزہ کی مشرقی سرحد پر جمع ہونے والے حق واپسی کے مظاہرین کی کوریج کررہے تھے۔ مظاہرین کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر شیلنگ اور براہ راست فائرنگ کایہ پہلا واقعہ نہیں۔ 30 مارچ 2018ء کو غزہ کی سرحد پر جمع ہونے والے فلسطینی مظاہرین پر حملے روز کا معمول بن چکے ہیں جن میں اب تک دسیوں صحافی کارکن زخمی ہوچکے ہیں جب کہ متعدد زخمی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو ھین نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے اسے 250 میٹر کی مسافت سے گولیاں ماریں۔ ایک گولی ان کی ٹانگ میں لگی جس کے نتیجے میں وہ معذور ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست مظاہرین کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر ان کی ٹانگیں توڑ رہی ہے۔
فلسطین کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 30 مارچ کے بعد اب تک 100 صحافی زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں ست 70 صحافی آنسوگیس کی گولیں لگنے اور باقی براہ راست فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں بعض کی ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں۔
قید وبند کی صعوبتیں
اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں دیگر حربوں کے ساتھ ساتھ قید و بند کی صعوبتیں بھی شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق 26 فلسطینی صحافی اسرائیلی زندانوں میں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے جرم میں قید ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے جبرو تشدد کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے تھے۔
فلسطین جرنلسٹ سپورٹ کمیٹی کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں قید صحافیوں میں 2خواتین کارکنوں سمیت 26 صحافی پابند سلاسل ہیں۔ رواں سال کے دوران قابض فوج نے 45 صحافیوں کو حراست میں لیا۔ ان میں سے 13 صحافیوں کی انتظامی قید میں توسیع کی گئی۔ انتظامی قید کی سزا کے تحت پابند سلاسل صحافیوں میں بشریٰ الطویل شامل ہیں۔
فلسطینی صحافیوں سے ان کے سامان اور کیمروں کی چھینا جھپٹی کا سلسلہ بھی معمول بن چکا ہے۔ 40 صحافیوں سے ان کے کیمرے چھینے گئے اور 19کو ان کے صحافتی کارڈز اور ان کی پیشہ وارانہ دستاویزات سے محروم کیا گیا۔
سیاسی انتقال
فلسطین جرنلسٹ سپورٹ کمیٹی کے چیئرمین صالح المصری نے ’مرکز اطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں صحافت کے پیشے سے وابستہ ہر کارکن اس لگن اور جذبے کے ساتھ کام کرتا ہے کہ انہیں اپنی جان سے بھی گذرنا پڑے، قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں مگر وہ صہیونی جبروت اور اس کے غاصبانہ تسلط ومظالم کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔
ایک سوالکے جواب میں صالح المصری نے کہا کہ فلسطینی صحافتی عملے کو نشانہ بنانا صرف اسرائیلی فوج کی پالیسی نہیں بلکہ صہیونی ریاست کی سرکاری پالیسی ہے۔ اس پالیسی کا اطلاق حکومت کے اعلیٰ سطح سےہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ میں جاری حق واپسی مظاہروں کے دوران بڑی تعداد میں صحافی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔
انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی ریاست کے جبرو ستم اور انتقام کا شکار فلسطینی صحافت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے فلسطینی صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل باضابطہ سیاسی انتقام کے پالیسی کے تحت فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور اس پر عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہے۔