صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے منگل کے روز امریکا کو 2015ء کے بین الاقوامی سمجھوتے سے الگ کر لیا، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار تشکیل دینے کے پروگرام سے باز رکھنا تھا۔
صدر نے دلیل دی کہ یہ معاہدہ ’’تباہ کُن‘‘ تھا، جس سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے اور دنیا کے لیے خطرے کا باعث بننے سے نہیں روکا جا سکتا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایران پر ’’شدید نوعیت کی معاشی تعزیرات‘‘ دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ یورپی یونین کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ کے ساتھ نئے سمجھوتے پر دوبارہ مذاکرات کرنے پر تیار ہیں، تاکہ وہ بیلسٹک میزائل تجربات بند کرے اور شام، یمن، اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات کی جانب فوجی مداخلت سے باز رہے۔ ایران نے پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کوئی نیا معاہدہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
وائٹ ہاؤس سے اپنے مختصر خطاب میں، ٹرمپ نے اپنے پیش رو سابق صدر براک اوباما کی جانب سے کیے گئے اس سمجھوتے کو ’’گلہ سڑا اور بیکار‘‘ قرار دیا دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ بناوٹی افسانہ‘‘ تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام محض پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ ’’ایران کا وعدہ ایک جھوٹ تھا‘‘۔
سمجھوتے سے دستبردار ہو کر ٹرمپ نے 2016ء میں اپنی صدارتی انتخابی مہم کا ایک وعدہ پورا کیا ہے۔ تاہم، ایسا کرتے ہوئے، اُنھوں نے امریکا کے تین انتہائی قریبی اتحادیوں، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی التجا کو بھی مسترد کیا، جو چاہتے تھے کہ امریکا معاہدے سے جُڑا رہے، جس میں چین اور روس بھی شامل ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’’جب میں کوئی وعدہ کرتا ہوں تو میں اُسے پورا کرتا ہوں‘‘۔
ٹرمپ اکثر یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ نیوکلیئر پروگرام پر پابندیوں کے بدلے ایران کے خلاف تعزیرات میں نرمی برتنے سے متعلق 2015ء کا سمجھوتا ’’تباہ کُن‘‘ ہے۔
اِس اعلان سے قبل، ٹرمپ دونوں جانب سے دباؤ کا شکار تھے، جس میں یورپی سربراہان بھی شامل ہیں، جو اس بات کے خواہاں تھے کہ امریکہ معاہدہ جاری رکھے، جب کہ اسرائیل نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ ’’سریح جھوٹ اور دھوکہ دہی‘‘ پر عمل پیرا ہے۔
دو ہفتے قبل، فرانسیسی صدر امانوئیل میکخواں وائٹ ہاؤس میں تھے، جہاں اُنھوں نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ کیا گیا سمجھوتا ’’کمال درجے‘‘ کا نہ سہی، لیکن ’پلان بی‘ کی صورت میں اُس کا کوئی بدل موجود نہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن پیر کے روز واشنگٹن میں تھے، جو ٹرمپ انتظامیہ کے اہل کاروں کو باور کراتے رہے کہ معاہدے میں شامل رہا جائے۔ اُن کی ملاقات وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ہوئی؛ بعدازاں، نائب صدر مائیک پینس اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے ملے۔