جمعه 15/نوامبر/2024

عباس ملیشیا اسرائیلی فوج کی آلہ کار بن چکی: اسرائیلی اخبار

جمعہ 4-مئی-2018

اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار ’معاریف‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کےبائیکاٹ اور عدم تعاون کے اعلانات کے باوجود فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت سیکیورٹی ادارے اسرائیلی فوج کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق عباس ملیشیا نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کے خلاف ہونے والے 40 فی صد مزاحمتی حملے ناکام بنائے یا انہیں ناکام بنانے میں اسرائیلی فوج کی مدد کی۔

عبرانی اخبار نے جمعرات کے روز کی اشاعت میں فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سیکیورٹی اداروں کے کردار اور اسرائیلی فوج کے ساتھ ان کی معاونت کی تفصیلات شائع کی ہیں۔

اخباری رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کے مظاہروں کی روک تھام، غرب اردن میں امن وامان کے قیام اور اسرائیلی تنصیبات پر فلسطینیوں کے حملوں اور مزاحمتی کارروائیوں کو روکنے کے لیے  عباس ملیشیا اسرائیلی فوج کی آلہ کار بن چکی ہے۔

اخبار کے مطابق تل ابیب اور رام اللہ کے درمیان جاری سیکیورٹی تعاون دونوں حکومتوں کا ایک مختلف چہرہ ہے۔ غرب اردن میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے غیرمعمولی خدمات فراہم کیں اور اسرائیلی فوج کے ساتھ قدم قدم پر تعاون کیا ہے۔

تاہم اخبار یہ تسلیم کرتا ہے کہ حماس نے غرب اردن میں عوامی سطح پر اپنا گہرا رسوخ قائم کر رکھا ہے۔ اس رسوخ کو ختم کرنے کے لیے اسرائیلی فوج اور فلسطینی اتھارٹی کی پولیس مل کرکام کررہی ہیں۔ اگر فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون نہ کریں تو اسرائیلی فوج غرب اردن میں حماس کی مزاحمتی تحریک کے سامنے بے بس ہوجائے۔

’معاریو‘ کے مطابق اسرائیلی سیکیورٹی ادارے عباس ملیشیا کےبائیکاٹ کے حق میں نہیں بلکہ اسرائیلی فوج مغربی حکومتوں اور امریکا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ عباس ملیشیا کی مالی مدد، ضروری دفاعی آلات اور عسکری تربیت کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ غرب اردن میں اسرائیلی فوج کی جگہ اسے فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

اخباری رپورٹ کے مطابق بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے قدرے سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر جلد ہی وہ سستی معمول کے تعاون کی سطح پرآجاتی ہے۔

اسرائیل کو تشویش ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ معاملات مزید بگڑے اور عباس ملیشیا کی طرف سے تعاون متاثر ہوا توغرب اردن میں مزاحمت کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پائے معاہدے میں دو طرفہ سیکیورٹی تعاون کی شق بھی شامل تھی۔

مختصر لنک:

کاپی