اپریل کے مہینے اور فلسطین میں رنگ دار انڈوں کا آپس میں ہزاروں سال پرانا تعلق ہے۔ ایریل کا مہینا آتے ہی فلسطین کے مختلف شہروں بالخصوص مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی انواع واقسام کے رنگوں سے انڈوں کو رنگین کرتے۔ انہیں ایک دوسرے کو تحفے میں پیش کرتے یا ان کے ساتھ روایتی کھیل کھیلتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شوق نہ صرف بچوں میں عام ہے بلکہ بڑے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ گھر کی بوڑھی عورتیں انڈوں کو رنگنے میں کافی مہارت رکھتی ہیں۔ وہ انڈوں کو رنگنے کے لیے کئی طرح راویتی ٹوٹکٹے استعمال کرتی ہیں۔
پیاز کا چھلکا
غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کی رہائشی خدیجہ الحسن نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری دادی اماں کہا کرتی ہیں کہ اپریل کے مہینے میں چار جمعراتیں آتی ہیں۔ ہرجمعرات کا اپنا خاص نام ہے۔ انہیں جمعرات النبات، جمعرات حلویات، جمعرات البنات اور جمعرات ممات کے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔
انڈوں کو رنگنے کا عمل دوسری جمعرات کو شروع ہوتا ہے۔ اسے جمعرات ممات بھی کہا جاتا ہے۔ اس روز لوگ رنگ دار انڈے ابال کر قبرستانوں میں جاتے اور وہاں پر ایک دوسرے میں بانٹتے ہیں۔
خدیجہ کا کہنا ہے کہ اپریل کی یہ پہلی جمعرات ہمارے لیے عید کی طرح ہوتی ہے۔ ہم رفیدیا کالونی کے رہنے والے تمام چھوٹے بڑے اس جمعرات کو عید کی طرح خوشی مناتے ہیں۔ انڈوں کو پیاز کے چھلکے کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور اسے لوگوں کو دیا جاتا ہے۔
دیگر رنگ
رام اللہ کی ھلا مصطفیٰ کہتی ہیں کہ اپریل کا مہینا آتے ہی ہماری نانی اماں انڈوں کا ایک کریٹ خرید کر گھر لے آتی ہیں۔ اس کے بعد انہیں پیاز کے چھلے میں رنگا جاتا ہے۔ ہم بچے دن بھر ان رنگین انڈوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ پیازے کے چھلکے کو پانی میں ابالا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں بادام یا اخروٹ کے سبز پتے ڈالے جاتے ہیں جن سے پانی مختلف رنگوں میں شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے بعد ان انڈوں کو اس پانی میں ڈالا جاتا ہے جو متنوع رنگ اختیار کرتے ہیں۔
ھلا کاکہنا ہے کہ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ انڈوں کو رنگنے کی یہ روایت کب اور کہاں سے شروع ہوئی۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ ماہ اپریل آتے ہی لوگوں میں انڈوں کو رنگنے کا ایک مقابلہ سا شروع ہوجاتا ہے۔رنگین ابلے انڈے پڑوسیوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔
فلسطین میں ماہرین ثقافت وتاریخ کا کہنا ہے کہ انڈوں کو رنگنے کا یہ سلسلہ پانچ ہزار سال پرانا ہے۔ یہ سب سے پہلے اہل مصر کے ہاں مروج تھا۔ مصری اپنی عید کے ایام میں انڈوں کو مختلف رنگوں میں رنگتے تھے۔ اس کے بعد ان انڈوں کو لے کر دریائے نیل میں کشتیوں میں سوار ہوتے۔ موسیقی کی محفلیں منعقد کی جاتی۔ گھروں کو پھولوں اور رنگین انڈوں سےسجایا جاتا۔
جمعراتوں کی حقیقت
فلسطینی مورخ ایوب محمود نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈوں کو رنگنے کا سلسلہ پرانے دور کا ایک آرٹ ہے جسے یکے بعد دیگرے اقوام نے نسل در نسل ہم تم پہنچایا۔ یہ صرف مشرق وسطیٰ میں نہیں بلکہ یورپی ممالک میں ایسٹر کے تہوار کے بعد منایا جانے والا ایک تہوار تھا۔ مختلف علاقوں میں اس کے مختلف نام تھے مگر عربی بولنے والے اسے ’خمیس‘ یا جمعرات کا تہوار کہتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک خیال یہ ہے کہ انڈوں کو رنگنے کا سلسلہ زمانہ قدیم میں بد پرستی کے دور ملتا ہے۔ لوگ رنگین انڈوں کو تولید اور زرخیزی کی علامت کے طورپر استعمال کرتے۔ پرانے دور کی قبروں سے بھی اس طرح کے رنگین انڈوں کی باقیات ملی ہیں۔ غالبا عیسائیت سے قبل اس خطے کے باشندوں کے مذاہب میں قبروں میں مردوں کے ساتھ انڈے بھی رکھے جاتے تھے۔
لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ انڈے سے زندہ جاندار باہر آتا ہے۔ اس لیے قبر میں موجود مردہ بھی اس انڈے میں موجود جاندار کی طرح زندہ رہے گا۔
سنہ 325 ء میں کلیسیا نے ایسٹر کے بعد خمیس کو بھی ایک تہوار قرار دیا۔ اس تہوار میں لوگ مٹھائیاں تقسیم کرتے اور ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے۔ 19 ویں صدی میں رنگین انڈوں کو بھی اس عید کا حصہ قرار دیا گیا اور لوگ سنہری اوراق میں انڈے لپیٹ کر ایک دوسرے کو تحفے میں پیش کرتے۔ اغارقہ اور رومن اقوام نے بھی انڈوں کو اپنی میتوں کے ساتھ قبروں میں رکھنے کا طریقہ اختیار کیا۔
یہی طریقہ مصر کے فراعنہ نے اپنایا۔ انہوں نے اسے ’عید شم النسیم‘ یا موسم بہار کی عید کا نام دیا۔ فراعنہ کے دور میں اس عید کے موقع پر انڈے مختلف رنگوں میں ڈھالے جاتے اور اس کے بعد انہیں ایک دوسرے کو پیش کیا جاتا۔