دنیا فلسطینیوں کی کسی حامی شخصیت پر قاتلانہ حملے یا اسرائیل کے ریاستی دہشت گردی کے کسی بھی واقع پر صہیونی ذرائع ابلاغ فورا حرکت میں آتے اور اس کارروائی کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے بھرپور ابلاغی زور صرف کیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ملائیشیا میں فلسطینی سائنسدان ڈاکٹر فادی البطش کی ’موساد‘ کے ہاتھوں مجرمانہ شہادت اور اس کے بعد اسرائیلی میڈیا کے پروپیگنڈے سے لی جاسکتی ہے۔
ابھی ڈاکٹر فادی البطش کی ٹارگٹ کلنگ میں شہادت کی خبر ہوا کی دوش پر تھی کہ صہیونی میڈیا نے اس مجرمانہ واردات کے جواز کے پہلو تلاش کرنا شروع کردیے اور ان پر بحث بھی شروع کردی۔ صہیونی میڈیا کے اس پروپیگنڈے نے ذہنوں اور دلوں کو اس کارروائی میں ’موساد‘ کے ملوث ہونے کے شک کو یقین میں بدل دیا۔اگر اس کے مجرمانہ واردات میں موساد کا ہاتھ نہ ہوتا تو صہیونی ذرائع اس کی اتنی حمایت میں چلا چلا کر واویلا نہ کرتا۔
اگرچہ اسرائیل نے سرکاری طور پر اس مجرمانہ واقعے کا اعتراف نہیں کیا ہے مگر اس طرح کی کسی بھی کارروائی کے پیچھے صہیونی ریاست کے سوا اور کسی کا ہاتھ نہیں ہوسکتا۔ اسرائیلی میڈیا کا پروپیگنڈہ ضمنی طور پر صہیونی ریاست کے اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب کا اعتراف ہے۔ صہیونی میڈیا نے خود کو ’موساد‘ کا خفیہ آلہ کار ثابت کیا ہے۔
فلسطینیوں کے مجرمانہ قتل پر اسرائیلی میڈیا کے کردار پرمرکز اطلاعات فلسطین نے ماہرین کی آراء کے ذریعے روشنی ڈالی ہے۔
ذرائع ابلاغ پر فوجی تسلط
حال ہی میں اسرائیل کی عبرانی نیوز ویب سائیٹ ’گلوبز’ نے اسرائیل کے انتہائی موثر اور طاقت ور 50 صحافیوں کی ایک فہرست شائع کی۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اس فہرست میں شامل بیشتر نام سابق فوجی افسران کے شامل ہیں۔ بعض فوج کے علاوہ دوسرے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان کا اصل تعارف صحافت سے زیادہ عسکری میدان میں خدمات ہیں۔
اسرائیلی ٹی وی کے عرب امور کے تجزیہ نگار ’یونی بن مناحم‘ اور اسرائیل کے عبرانی ریڈیو کے ڈائریکٹر اس وقت صحافت سے وابستہ ہے مگر ماضی میں وہ فوج کی ملٹری انٹیلی جنس میں کیپٹن کے عہدے پر کام کرچکا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 10 کے فوجی تجزیہ نگار ’الون بن ڈیوڈ‘ کا صحافتی سفر بہت محدود ہے، وہ ماضی میں اسرائیلی فوج کی آرٹلری یونٹ میں اہم عہدے پر کام کرچکے ہیں۔
عبرانی ٹی وی 2 کے فوجی مبصر’رونی ڈانیل‘ بھی فوج کے ترجمان رہ چکے ہیں۔
اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ میں عرب امور کے ایڈیٹر رونی شکید سابق فوجی ہیں، وہ داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے ’شاباک‘ میں تفتیش کار رہ چکے ہیں۔ بیت المقدس کے المسکوبیہ حراستی مرکز میں وہ سنہ 1983ء کے بعد فلسطینی قیدیوں کو اذیتیں دینے میں بدنامی کی حد تک مشہور تھا۔
عبرانی ٹی وی 2 کے عسکری تجزیہ نگار ایٹن بن الیاھو کا سنیں۔ وہ بھی فضائی دفاع کا سابق سربراہ رہ چکا ہے۔
عبرانی ٹی وی ون کا عسکری تجزیہ نگار عاموس مالکا سابق انٹیلی جنس چیف اور مسلح افواج کے مرکزی اسٹاف میں شامل رہا ہے۔
رونین بیرگمن خود کو صحافی بتاتا ہے مگر وہ ملٹری پولیس کی ایک یونٹ کا انچارج رہ چکا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے تین بنیادی اصول
اسرائیل کا عمومی ابلاغی ڈھانچہ فلسطینیوں سے متعلق خبروں پر تین بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہے۔
پہلا اصول’ابلاغی ترجیحات کی ترتیب‘ ہے۔ اس اصول کے تحت اسرائیلی عوام اور عالمی رائے عامہ کو مد نظررکھتےہوئے زمینی حالات کی کوریج کی جاتی ہے۔
دوسرا اصول’ الیکٹرانک گیٹس‘ کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اسرائیلی فوج فلسطینی ابلاغی ذرائع پر کڑی نگرانی کرتی ہے۔ فلسطینی ابلاغیات پراثرانداز ہو کر انہیں کوریج سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رائے عامہ کو فلسطینیوں کے حوالے سے منفی پہلو پر سوچنے پر مجبور کرنے کی مہمات چلائی جاتی ہیں۔ جعلی اور من گھڑت خبریں، افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور حالات واقعات کو مخصوص رنگ اور سیاسی رنگ آمیزی کی کوشش کی جاتی ہے۔
تیسرا اصول مخصوص معلومات کی ترویج ہے۔ اس کے تحت اسرائیلی ذرائع ابلاغ اور دوسرے ادارے رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے سحرانگیز اور طلسماتی نوعیت کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔
اس کی مثال صہیونی فریڈم سینٹر برائے اسٹریٹیجک وپولیٹیکل اینلائسز‘ کے تحت جاری کی گئی ایک رپورٹ کے عنوان سے لی جا سکتی ہے۔ یہ رپورٹ فوجی تجزیہ نگار یونی بن مناحم کی طرف سے تیار کی گئی ہے جس کا عنوان ہے’کیا حماس اسرائیل کے خلاف ذہنوں کی جنگ کا مفہوم سمجھ پائے گی؟‘۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے سیکیورٹی ادارے حماس کو جدید ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنے کے لیے ہرطرح کے طریقے استعمال کریں گے تاکہ حماس اسرائیل کو دفاعی نظام میں سرپرائز دینے میں ناکام رہے۔ ڈاکٹر فادی البطش کا قتل بھی اسرائیل کی اسی مہم کا حصہ ہے۔