جمعه 15/نوامبر/2024

عرب سربراہ اجلاسوں نے فلسطینی قوم کو کیا دیا؟

منگل 17-اپریل-2018

سنہ 1946ء میں عرب لیگ کے قیام کے بعد اب تک 45 عرب سربراہ اجلاس ہوچکے۔ ان میں بعض ہنگامی، بعض معمول کے اور کچھ اقتصادی اجلاس تھے۔

رواں سال 29 ویں عرب سربراہ کانفرنس کا اعلان کیا گیا تو اس بار اس کی ایک انفرادیت تھی۔ اس کانفرنس میں قضیہ فلسطین کو ایجنڈے میں سر فہرست رکھا گیا۔ اس کے علاوہ شام، لبنان، یمن، خلیجی بحران، عرب ممالک کے ایران کے ساتھ بنتے بگڑتے تعلقات جیسے موضوعات شامل تھے۔

عرب سربراہ اجلاسوں کے 71  برس اور ان میں فلسطین کے بارے میں منظور ہونے والی دسیوں قراردادیں اب قصہ پارینہ ہوچکی ہیں۔ عرب ممالک کی باہمی رنجشیں اور اندرونی بحرانوں نے ان قراردادوں پرعمل درآمد کا موقع نہیں دیا۔ عرب ممالک اپنے منظور کردہ فیصلوں اور فلسطین کے حوالے سے قراردادوں پر عمل درآمد میں بری طرح ناکام رہےہیں۔

مگر اس کے باوجود فلسطینی قوم نے ہر بار ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس سے امید کا رشتہ قائم رکھا۔ اس توقع کے ساتھ کہ شاید اب کی بار عرب سربراہ کانفرنس کوئی جاندار اقدام کرنے کی کوشش کرے گی۔

اتوار کے روز سعودی عرب کی میزبانی میں عرب سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس سعودی عرب کے شہر الظہران میں ہوئی جس میں بائیس عرب ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔

اس کانفرنس میں القدس اور فلسطین کے تنازع کو سر فہرست رکھا گیا تھا۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے اس موقع کی مناسبت سے عرب سربراہ کانفرنس کے ماضی میں فلسطین کے بارے میں ہونے والے فیصلوں، ان پر عمل درآمد اور اثرات کا جائزہ لیا ہے۔

پہلی عرب سربراہ کانفرنس مئی 1946ء میں مصر کے شہر انشاص میں منعقد کی گئی۔ یہ ایک ہنگامی اجلاس تھا جس میں قضیہ فلسطین کی نصرت کی حمایت کی گئی۔ اس اجلاس میں قضیہ فلسطین کو عرب ممالک کا اہم ترین اور فوری حل طلب مسئلہ قرار دیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ قضیہ فلسطین کا مستقبل ہی عرب اقوام کا مستقبل ہے۔ اگر قضیہ فلسطین کے عرب تشخص کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ پوری عرب دنیا کے تشخص کے نقصان کے مترادف ہے۔

اس کے بعد اگلی عرب سربراہ کانفرنس 13 جنوری 1964ء کو ہوئی۔ اس کانفرنس کی میزبانی مصرنے کی اور مصری صدرجمال عبدالناصر نے میزبان  رہ نما کی حیثیت سے  اہم کردار ادا کیا۔ اس میں فلسطین کی طرف سے احمد الشقیری کو مندوب مقرر کیا گیا تھا۔

کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ تمام عرب ممالک قضہ فلسطین کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کو دور کریں گے۔ مل کر عرب ممالک کے مفادات کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ اسرائیلی جارحیت کا ہرسطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔ مگر عرب ممالک اور مسلم امہ فلسطین کے حوالے سے کوئی مربوط اور ٹھوس موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی اور اختلافات کا دائرہ مسلسل بڑھتا چلا گیا۔

پانچ ستمبر سنہ 1964ء کو اسکندریہ شہر میں عرب سربراہ کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ اس اجلاس میں جلد یا بہ دیر تمام عرب ممالک نے آزادی فلسطین کے لیے جدو جہد کرنے کا عزم کیا۔ تنظیم آزادی فلسطین کی حمایت کی گئی اور فلسطین کی آزادی کے لیے فوج تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا۔

ستمبر 1965ء کو مراکش کے شہر دارالبیضاء میں عرب سربراہ اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں تنظیم آزادی فلسطین نے شرکت کی۔ اس میں پی ایل او کی حامیت، آزادی فلسطین کے لیے لڑنے والی فورسز کی مدد کے اعلان کے ساتھ فلسطین نیشنل کونسل کے قیام کی تجویز پرغور کیا گیا۔ اس کانفرنس میں یہ طے پایا کہ تمام عرب ممالک مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پراٹھانے کے لیے متفقہ موقف اختیار کریں گے اور مل کر کوئی جامع لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔

انتیس اگست 1967ء کو عرب سربراہ کانفرنس کا اجلاس سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ہوا۔ یہ اجلاس چھ روزہ عرب۔ اسرائیل جنگ کے بعد منعقد کیا گیا۔ اس میں شام کے سوا تمام ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ اجلاس میں مقبوضہ عرب علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے عرب علاقوں سے نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ کہا گیا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی صہیونی ریاست کو تسلیم کیا جائے گا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ عرب لیگ کے ان دبنگ اعلان پر عمل درآمد کے بجائے اس کے برعکس صہیونی ریاست کے ساتھ معاہدے کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اسرائیل سے سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کرکے فلسطینی قوم کی امنگوں کا خون کیا گیا۔

چھبیس نومبر 1973ء کو الجزائر کی میزبانی میں عرب سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں اسرائیل کے ساتھ امن کے لیے دو شرایط طے کی گئیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیل تمام مقبوضہ عرب علاقوں بہ شمول بیت المقدس سے فوجیں نکالے، فلسطین قوم کے مسلمہ حقوق اس کے حوالے کرے۔ دوسرا یہکہ شام اور مصر کے محاذوں پر مالی اور عسکری مدد فراہم کرکے اسرائیل کی توسیع پسندی کو روکا جائے گا۔

مگر حال ہی میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تو عرب ممالک میں کوئی جنبش تک نہیں ہوئی۔

کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی مخالفت

نومبر 1978ء میں بغداد میں عرب سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس اس وقت ہوئی جب مصر نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا۔ اس کانفرنس میں تنظیم آزادی فلسطین کے ساتھ 10 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان طے پائے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ مصر پر زور دیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ انفرادی تعلقات کےفروغ کے بجائے عرب ممالک کے متفقہ فیصلوں سے باہر نہ جائے اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ختم کردے۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی اور مشرقی محاذوں پر فلسطینیوں کی عسکری اور مالی مدد کرنے اور تنظیم آزادی فلسطین کی مادی مدد جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔

پچیس نومبر 1980ء کو ایک عرب سربراہ اجلاس اردن کی میزبانی میں عمان میں ہوا۔ اس اجلاس میں بھی کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو مسترد کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اجلاس میں زور دیا گیا کہ عرب ممالک فلسطین کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قرارداد 242 سے عرب ممالک متفق نہیں اوریہ قرارداد قضیہ فلسطین کے حل کی اساس نہیں بن سکتی۔ اجلاس میں تنظیم آزادی فلسطین کو دہشت گرد قراردینے کے امریکی اعلان اور واشنگٹن کی طرف سے اسرائیل کی غیر مشروط مدد کی مذمت کی گئی۔

عرب لیگ کا ترقی معکوس کا سفر

پندرہویں عرب سربراہ کانفرنس مراکش میں 6 ستمبر 1982ء کو منعقد ہوئی۔ وہاں سے عرب سربراہ کانفرنس نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور اسرائیل کے حوالے سے ایک نئی حکمت عمل وضع کی۔ اس میں عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کو تسلیم کرلیا گیا تاہم ساتھ یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے تمام علاقوں سے فوجیں واپس بلائے اور یہودی کالونیوں کو ختم کرے۔ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور حق واپسی کی حمایت کی گئی تاہم یہ کہا گیا کہ جو فلسطینی پناہ گزین واپس اپنے علاقوں میں نہیں جانا چاہتے انہیں معاوضہ ادا کیا جائے۔ اجلاس میں القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔

سات جون 1988ء کو الجزائر کی میزبانی میں عرب سربراہ اجلاس ہوا۔ اس کانفرنس میں فلسطینی عوام کی انتفاضہ کی حمایت کی گئی۔ اجلاس میں فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی عالمی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیاگیا۔ اسرائیل کے بائیکاٹ اور امریکا کی طرف سے اسرائیل کی مدد جاری رکھنے کی ڈٹ کر مخالفت بھی کی گئی۔

23 مئی 1989ء کو ایک بار پھر مراکش کے شہر دارالبیضاء میں عرب سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت اور اسے تسلیم کرانے کے دائرے کو وسعت دینے، اسرائیل کو سنہ 1967ء کے علاقوں سے نکل جانے کی حمایت میں قرادادیں منظور کی گئیں۔

28 مئی 1990ء کو بغداد میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری، غیرقانونی بستیوں کےقیام اور القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے امریکی کانگریس کے اقدام کو مسترد کدیا گیا۔ اجلاس میں فلسطینی تحریک انتفاضہ کی پرزور حمایت اور تائید کرتے ہوئے فلسطینی قوم کی مادی، معنوی مدد اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی۔

اس کے بعد چھ سال تک فلسطین کے حوالے سے کوئی عرب سربراہ کانفرنس نہیں ہوسکی۔ 21 جون 1996ء کو قاہرہ میں ہنگامی عرب سربراہ کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس میں اسرائیل کے ساتھ مشروط امن کی تجدید کی گئی۔ اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکل جائے، وادی گولان، جنوبی لبنان کو خالی کرائے اور یہودی توسیع پسندی کا سلسلہ روکا جائے۔

اکیس اکتوبر 2000ء میں 23 ویں عرب سربراہ کانفرنس میں قاہرہ میں ہوئی۔ اس کانفرنس میں انتفاضہ القدس فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جس کے لیے 200 ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی۔ اس کےعلاوہ فلسطینی شہداء کے بچوں، اسیران کے اہل خانہ اور زخمی فلسطینیوں کے لیے 800 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔

 ستائیس اور 28 مارچ 2001ء کو عمان میں ہونے والی عرب سربراہ  کانفرنس میں فلسطینی قوم کے حقوق کی حمایت کی گئیْ

24 ویں عرب سربراہ کانفرنس بیروت میں 27 اور 28 مارچ 2002ء کوہوئی۔ اس کانفرنس میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے لیے امن پلان پیش کیا گیا جسے منظور کرلیا گیا۔

کانفرنس میں فلسطینی اتھارٹی کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے 330 ملین ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا۔ اس کے علاوہ الاقصیٰ اور القدس فنڈز کے لیے 150 ملین ڈالر کی رقم کی منظوری دی گئی۔

22 مارچ 2005ء کو دو روزہ عرب سربراہ کانفرنس الجزائر میں ہوئی جس میں فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کی مذمت کے ساتھ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے فلسطین میں یہودی آباد کاری کے خلاف منظور کردہ فیصلوں کی تائید کی گئی۔

2009ء میں دوحہ میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں فلسطینی دھڑوں میں پائے جانے والے اختلافات دور کرنے پر زور دیا گیا۔ اسرائیل پر یہودی توسیع پسندی، نسل پرستی، القدس کے خلاف اقدامات کو مسترد کردیا گیا۔

2010ء میں لیبیا کے شہر سرت میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں القدس کے دفاع کے لیے عرب ممالک کی سطح پر تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل، یورپی یونین اور یونیسکو کو قبلہ اول کے حوالے سے اسرائیلی سازشوں سے آگاہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔

چھبیس اور ستائیس مارچ 2013ء کو قاہرہ میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں دوحہ میں ہونے والے سربراہ کانفرنس کے فیصلوں کی توثیق کی گئی اور القدس کے لیے عرب فنڈ کے قیام اور اس کے لیے ایک ارب ڈالر کی رقم کا اعلان کیا گیا۔

26 مارچ 2014ء  کو کویت اور 25 جولائی 2016ء کو موریتانیہ میں عرب سربراہ کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی