سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ظہران میں اتوار کو انتیسویں عرب سربراہ جلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین ہمارا اوّلین اور فوری حل طلب مسئلہ ہے اور ہم اس کو ہمیشہ مقدم رکھیں گے‘‘۔ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے کی مذمت کی اورکہا کہ ایسا کرنے سے تنازع فلسطین کا حل اور بھی پیچیدہ ہوسکتا ہے۔
انھوں نے عرب لیگ کے اس سربراہ اجلاس کو ’’ القدس کانفرنس‘‘ سے موسوم کیا ہے تاکہ دنیا بھر میں ہر کسی کو یہ باور کرایا جاسکے کہ فلسطین عرب عوام کے ضمیر میں جاگزیں ہے۔شاہ سلمان نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مشرقی القدس کو آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہیے۔
انھوں نے فلسطینیوں کے لیے 20 کروڑ ڈالرز کی امداد کا علان کیا ہے۔اس میں سے پانچ کروڑ ڈالرز فلسطینی مہاجرین کی ذمے دار اقوام متحدہ کی ایجنسی اُنروا کو دیے جائیں گے اور پندرہ کروڑ ڈالرز مقبوضہ القدس میں اسلامی وقف اسپورٹ پروگرام کے لیے دیے جائیں گے۔
سعودی فرماں روا نے خطے میں ایران کے توسیع پسندانہ کردار کے خلاف اقوام متحدہ کا ایک مضبوط مؤقف اپنانے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔ان کے بہ قول ایران کے اس کردار کی وجہ سے خطے میں بد امنی پھیل رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ عرب قومی سلامتی ایک مکمل اور ناقابل تقسیم نظام ہے۔انھوں نے عرب قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کی جانب سے ایک منصوبہ پیش کیا۔انھوں نے ایک عرب کلچرل سمٹ کے قیام کے لیے سمجھوتے کا بھی خیرمقدم کیا ہے
الظہران میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس سے خطاب میں اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ فلسطینیوں کی ہرطرح کی حمایت ہم سب پر واجب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ القدس پر فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کو ابدی اور دائمی حق ہے جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ فلسطینی قوم کو ان کی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام میں ان کی ہرطرح سے مدد کی جانی چاہیے۔
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے القدس کے بارے میں متنازع اعلان کے بعد عرب ممالک کی طرف سے کم زوری کا مظاہرہ کیاگیا۔ تمام عرب ممالک کو قضیہ فلسطین کے حوالے سےصدر محمود عباس کے ویژن کی حمایت کرنی چاہیے۔