ارض فلسطین سے آنے آئے روز آنے والی لرزہ خیز خبروں میں یہ افسوسناک خبر بھی اکثر سننے کو ملتی ہے کہ غاصب صہیونی حکام نے تاریخ مقدس مقام ’مسجد خلیل اللہ ‘ کو اذان سے محروم کردیا۔
یہ روز مرہ کا معمول ہے کہ صہیونی مسجدابراہیمی میں مسلمانوں کی اذانوں اور نمازوں پر پابندی عاید کرتے ہیں، مگر صہیونیوں کو مقدس مقام میں کھل کھیلنے کی پوری اجازت ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے۔ صہیونی مسجد ابراہیمی میں زمان ومکان کی پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے عبادت کا کوئی وقت اور کوئی جگہ نہیں مگر صہیونیوں کے لیے یہ عبادت گاہ ہروقت کھلی ہے۔
سنہ 1994ء میں ماہ صیام کی ایک صبح کو اس مسجد ابراہیمی میں ایک دہشت گرد اور ننگ آدمیت شخص نے سجدے میں گرے تیس مسلمان نمازیوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کردیا۔ اس کے بعد صہیونی ریاست نے اس مسجد کو فلسطینیوں اور یہودیوں میں زمان ومکان کے اعتبار سے تقسیم کرکے ایک نئی سازش کی بنیاد رکھی۔ مسلمانوں پر مخصوص اوقات کے علاوہ عبادت ، اذان اور نماز پر پابندی عاید کی گئی۔
مسجد ابراہیمی کے ویسے تو سارے مقامات پر صہیونیوں کا قبضہ ہے مگر سنہ 1994ء میں صہیونی حکام نے مسجد کے’یوسفیہ‘ ہال کو مسلمانوں سے مکمل طورپر چھین لیا۔
یوسفیہ ہال مسجد کا وہ حصہ ہے جہاں کئی سال قبل اذان کے لیے الیکٹرانک آلات نصب تھے اور وہیں سے موذن آذان دیتے۔ اس مقام پر قبضہ کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان مسجد میں اذان نہ دے پائیں۔
اذان پر پابندی کا منصوبہ
الخلیل شہر کے فلسطینی مفتی اور عالم دین الشیخ محمد ماہر مسودی کہتے ہیں کہ جب سے اسرائیل نے مسجد ابراہیمی پرقبضہ کیا ہے اس کے بعد سے آج تک اس مسجد میں مسلمانوں کو نماز مغرب کی اذان کی اجازت نہیں دی گئی۔ عید کے ایام میں اگرچہ یہ مسجد مسلمانوں کے لیے کھولی جاتی ہے مگراذان کی پابندی برقرار رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ میں مسجد میں 155 بار اذان ہونی چاہیے مگر اسرائیلی انتظامیہ کی ناروا پابندیوں کے باعث 50 سے 70 بار ہی اذان دی جاسکتی ہے۔ باقی نمازوں کے لیے اذانوں کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب بھی مسجد میں اذان دینا ہوتی ہے تو اسرائیلی انتظامیہ سے اس کی باضابطہ اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہودی فوجیوں کی مرضی ہوتی ہے چاہے وہ اجازت دیں چاہے نہ دیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں الشیخ مسودی کا کہنا ہے کہ مسجد ابراہیمی میں اذان اور نماز پر پابندی دراصل صہیونی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ عقاید کی جنگ ہے۔
مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الشیخ ابو اسنینہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسجد ابراہیمی میں اذان اور نمازوں پر پابندی عاید کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سنہ 1994ء میں مسجد کی نمازیوں کی شہادت کے بعد اسرائیل نے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔’شمغار‘ کمیشن کے نام سے مشہور ہونے والے اس کمیشن نے نمازیوں کے قتل عام کی تحقیقات کے بجائے مسجد ہی کو تقسیم کرنے کی سازش تیار کی۔ اس کمیٹی نے مسجد کا ابراہیمی ہال، یوسفی ہال، یعقوبی ہال، اسحاقی اور جاولی ہال صہیونیوں کو دینے کی منظوری دی۔
مسلمانو نمازیوں کو یوسفیہ گیلری کی طرف سے ایک چھوٹے سے دروازے سے مسجد میں جانے کی اجازت ہے، مگر وہاں پر صہیونیوں نے المونیم سے بنی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔
یہودیوں کے حملے اور قبضہ
الشیخ ابو اسنینہ کا کہنا ہے کہ یہودیوں کو مسجد ابراہیمی میں داخلے کی کھلی چھٹی ہے مگر ظلم یہ ہے کہ فلسطینیوں اور مسلمان نمازیوں کے راستے بند ہیں۔ جگہ جگہ الیکٹرانک گیٹ نصب ہیں، نمازیوں کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے اور بعض اوقات تو نماز کے لیے آنے والے نمازیوں پر مشکوک قرار دے انہیں فائرنگ سےنشانہ بنایا یا گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔
الشیخ ابو اسنینہ کا کہنا ہے کہ یوسفیہ ہال میں مسجد ابراہیمی کا ’حُجرہ اذان‘ ہے جس پر صہیونی حکام نے قبضہ جما رکھا ہے۔ صہیونی حکام مرضی سے کسی کو وہاں داخل ہونے دیتے ہیں۔ اذان چونکہ اسی جگہ سے دی جاتی ہے۔ اس لیے اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ صہیونی فوج اذان دینے کے لیے موذن کو اندر جانے سے روک دیتی ہے۔ کئی بار تو موذنین کو صہیونی حکام کے جبرو تشدد کے مکروہ ہتھکنڈوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسجد کی تعمیرو مرمت کے لیے بھی صہیونیوں سے اجازت لینا ضروری ہے۔
دوسرے الفاظ میں مسجد میں اذان دینے،نماز ادا کرنے، مسجد کی مرمت یا کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے فلسطینیوں کو صہیونیوں کی اجازت لینا پڑتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ کے مہینے میں مسجد ابراہیمی 53 مرتبہ اذان سے محروم رہی جبکہ 2017ء کے دوران مسجد کے دوربام کو 645 بار اذان سے محروم رکھا گیا۔