بیت المقدس کو تین آسمانی مذاہب میں غیرمعمولی اہمیت اور مذہبی تقدس کامقام حاصل ہے۔ یہ شہر ہزاروں سال کی انسانی تہذیب وتمدن کا امین ہے۔ یہاں کے گلی کوچے تاریخی مقامات سے بھرے پڑے ہیں۔ ان گنت قبریں، مزارات، قلعے اور تاریخی عمارتیں آج بھی اس شہر کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہیں۔
القدس کے تاریخی مقامات پر جب بھی روشنی ڈالی جاتی ہے تو اس میں کنعانی دور، فرعونی دور، صلیبی اور اسلامی دور کی یادیں تازہ ہوتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بیت المقدس کے بارے میں زمانہ قدیم میں مشہور تھا کہ یہ شہر دنیاوی اور اخروی زندگی کےدرمیان مقام وصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عقیدے کو ماننے والے یہاں قیام اور سکونت اختیار کرنے مرنے کے بعد اسی جگہ دفن ہونے کو ترجیح دیتے۔
القدس کے ان تاریخی مقامات میں مسجد اقصیٰ کے قریب پرانے بیت المقدس کی مغربی دیوار میں جبل الزیتون کے بالمقابل ایک مقبرہ نما جگہ ہےجسے تاریخی کتب میں ’طنطور فرعون‘ کہا جاتا ہے۔
اس جگہ کےایک جانب حضرت زکریا کی آخری آرام گاہ اور بنی حزیر قبیلے کی قبریں ہیں۔ قریب ہی کئی دوسری قبریں بھی ملتی ہیں جن میں سے بعض صدیوں پرانی ہونے کے باعث خستہ حال ہیں۔ ’طنطور فرعون‘ کے بارے میں یہودیوں کا اپنا ایک عقیدہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ طنطور فرعون کا اصل نام ’ید ابشالوم‘ تھا اور وہ حضرت داؤد کا بیٹا تھا۔ اس نے اپنے والد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو داؤد علیہ السلام کی فوج نے اس کا تعاقب کر کے قتل کردیا۔ بیٹے کے قتل پر اگرچہ داؤد علیہ السلام کو دکھ ہوا اور انہوں نے اس کی قبر بنانے کا حکم دیا۔ یہودی اس جگہ کو مقدس خیال نہیں کرتے۔ وہاں سے گذرتے ہوئے وہ سنگ باری بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صاحب قبر نے اپنے والد کے خلاف بغاوت کی تھی۔
مقبرے کا قیام
القدس کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے فلسطینی مورخ روبین ابو شمسیہ ے نے ’مرکز اطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس جگہ کو ’طنطور فرعون‘ کا نام اس لیے دیا گیا تاکہ اس دور میں وہاں پر مصری اور فرعونی فن تعمیر کی یاد گار رہتی دنیا تک رکھی جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ جگہ فرعونی اور یونانی دور کے فن تعمیر کے حسین امتزاج کی بھی نشانی ہے۔
ماہرین آثاریات کا کہنا ہے کہ یہ قبر پہلی صدی عیسوی میں بنائی گئی تھی۔ پہلی صدی عیسوی فلسطین میں یونان کا آخری دور چل رہا تھا۔ اس دور میں یہ رواج تھا کہ القدس میں رہنے والے اپنی موت سےپہلے ہی اپنی قبر کی جگہ کی نشاندہی اور وصیت کرتے تھے۔ اس دور کی ایسی کئی اور قبریں بھی موجود ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سےیہ تاریخی یادگار مسجد اقصیٰ کے جنوب میں واقع تل الظہور اور مشرق میں تلہ الراس العامود کے درمیان واقع ہے۔ اس جگہ کو وادی القدرون، وادی جھنم اور وادی ستنا مریم‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مکعب کی شکل میں بنی یہ تاریخی یادگار چٹانوں کے ذریعے تعمیر کی گئی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی مساوی ہے جب کہ گہرائی 6.80 میٹر اور اونچائی 12.80 میٹر ہے۔ اس کے چاروں کونوں میں ایک ایک بڑا ستون ہے۔ ہر ستون کے اوپر یونانی طرز تعمیر سے بنی چھت قبۃ کی شکل میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ آسمان کی طرف سے یہ قبے کھلے ہیں۔
فن تعمیرکا شاہکار
چبوترہ نما عمارت کے اندر عقبی طرف قریبا ایک میٹر کے فاصلے پراصل قبر موجود ہے جب کہ عمارت کی تزئین وآرائش سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تیاری پر غیرمعمولی محنت کی گئی ہے۔
عمارت کا سامنے والا حصہ تکون کی شکل میں ہے جو یونانی طرز تعمیر کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ اس دور میں عموما مقابر اور معابد کو اسی طرح کی شکل میں بنایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک کھلی گیلری قائم ہے جس میں آخری رسومات کی ادائی کی جاتی ہے۔ وہاں ایک طرف پانچ قبریں ایک ساتھ قطار میں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ ایک ہی خاندان کی ہیں۔
اسرائیل نے سنہ 1970ء میں دعویٰ کیا کہ وہاں پر موجود قبروں میں ایک قبر ’ابشالوم بن داؤد‘ کی ہے تاہم ابو شمسیہ کا ماننا ہے کہ اس جگہ پر ایسے کسی شخص کی قبر کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ اسرائیل اس جگہ کو یہودیانے کے لیے ابشالوم بن داؤد کی قبر قرار دینے کی مذموم کوشش کرتا ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابشالوم حضرت سلیمان کا بیٹا تھا۔ تورات میں بھی ایک ایسی روایت موجود ہے۔ اسے دس قبل مسیح میں قتل کردیا تھا تھا۔ تاہم کئی مورخین جن میں جوسیٹرنگ وزیاس بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ یہ مقبرہ یونای دور کا ہے جس کا حضرت داؤد یا سلیمان علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں۔
ابو شمسیہ کا کہنا ہے کہ طنطور فرعون محققین کے لیے محیر العقول مقام ہے۔ یہ اس دور کی واحد محفوظ قبر ہے جو آج بھی موجود ہے۔