امریکا نے ایک بار پھر سلامتی کونسل کو فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے پرامن مظاہرین پر تشدد کی مذمت سے متعلق بیان جاری کرنے سے روک دیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق جمعہ کی شام سلامتی کونسل کی طرف سے پریس کو جاری کرنے کے لیے ایک بیان تیار کیا گیا۔ اس بیان میں غزہ کی پٹی کی مشرقی سرحد پر جمع ہونے والے مظاہرین پر اسرائیلی فوج کی ننگی جارحیت کی مذمت کی گئی تھی مگر امریکی مداخلت کے بعد یہ بیان جاری نہیں کیا جاسکا۔
یہ مذمتی بیان سلامتی کونسل میں عرب گروپ کے رکن کویت کی طرف سے تیار کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے ارکان نے غزہ کی موجودہ صورت حال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ غزہ کی سرحد پر مسلسل دوسرے ہفتے فلسطینیوں کا احتجاج اور اسرائیلی فوج کی جانب سے پرتشدد حربوں سے صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے حقوق کےلیے پرامن احتجاج کا حق ہے اور اسرائیلی فوج کی طرف سے معصوم اور پرامن مظاہرین کا قتل عام باعث تشویش ہے۔ اس کے علاوہ بیان میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مظاہرین کی شہادتوں کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام پر بھی زور دیاگیا۔
سلامتی کونسل کے ارکان کی طرف سے یہ بیان پریس کو جاری کیا جانا تھا مگر امریکی اور صہیونی دباؤ کے بعد اسے جاری نہیں کیا جاسکا۔
خیال رہے کہ کل جمعہ کو غزہ کی مشرقی سرحد پر حق واپسی کے لیے پرامن احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر صہیونی فوج نے گولیاں چلائی تھیں جس کے نتیجے میں 10 فلسطینی شہید اور ڈیڑھ ہزار خمی ہوگئے تھے۔ 30 مارچ کو فلسطین میں یوم الارض کے موقع پر شروع ہونے والی چھ ہفتوں پر مشتمل اس احتجاجی تحریک میں ایک ہفتے میں 30 فلسطینی شہید اور تین ہزار سے زاید زخمی ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر عالمی تنظیموں نے غزہ میں پرامن مظاہرین کے قتل عام کی غیر جانب دارانہ اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔