اہل فلسطین ان دنوں ’یوم الارض‘ کے 42 ویں سال کے حوالے سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یوم الارض میں غزہ کی پٹی کے عوام احتجاج ، قربانیوں اور صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت میں ہراول دستہ کا کردار ادا کررہے ہیں۔
تیس مارچ جمعہ کو ’یوم الارض‘ کے موقع پر لاکھوں فلسطینیوں نے سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی طرف مارچ کیا۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج نے غیرمسبوق ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 18 فلسطینیوں کو شہید اور 1500 سے زاید کو زخمی کردیا۔
اسرائیلی فوج کی تمام تر رعونت اور وحشت وبریت کے باوجود غزہ کے عوام نے پورے عزم کے ساتھ صہیونی ریاست مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔
غزہ کی سرحد کو اسرائیلی فوج نے ’ممنوعہ‘ علاقے قراردے کر فلسطینیوں کو سرحد کے قریب آنے سے روک دیا۔ سرحد پر خار دار تاروں کی باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں میٹر کے علاقے میں کنکریٹ کی دیوار اور دیگر طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔
غزہ کی مشرقی سرحد پر صہیونی ریاست نے نام نہاد سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کر رکھےہیں مگر گذشہ جمعہ کو غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں سے چلنے والا مارچ صہیونی ریاست کی کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ صہیونی دشمن فوج کی طرف سے جتنی بھی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں وہ فلسطینیوں نے اکھاڑ پھینکیں اور یوں صہیونی ریاست کے خوف، رعب اور ھیبت کا ’آہنی محل‘ ریت کا گھروندا ثابت ہوا۔
نماز جمعہ کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کا ایک سمندر مشرقی سرحد کی طرف روانہ ہوا۔ لاکھوں فلسطینیوں کا جم غفیر جب سرحد کی طرف بڑھنے لگا کہ صہیونی فوج نے حسب روایت ان پر فائرنگ اور شیلنگ شروع کردی۔ مگر اس کے باوجود ہزاروں فلسطینی سرحد پر احتجاجی خیمے لگانےاور دھرنا دینے میں کامیان ہوگئے۔ سرحد پر جمع ہونے والے فلسطینیوں نے اپنے ساتھ لایا کھانا کھایا اور یہ تہیہ کیا کہ وہ اگلے چھ ہفتوں تک’یوم الارض‘ احتجاج جاری رکھیں گے۔
جمعہ اور واپسی
ہفتے کے روز غزہ کی مشرقی سرحد پر 65 سالہ ام کامل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ کی مشرقی سرحد پر اپنے عارضی گھر سے دور ہیں اور بہت خوش ہیں۔ ان کے ہمراہ احتجاج کے لیے ان کے بچے، بچیاں ، پوتے پوتیاں، نواسی اور نواسیاں اور دیگر ہزاروں اقارب آئے ہیں۔ آج وہ اپنے آبائی شہر’بیت دراس‘ کے بہت قریب ہیں۔ آج کا جمعہ کا دن باعث سعادت ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنے آبائی علاقے کی طرف جانے کی جدو جہد کررہےہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ام کامل نے کہا کہ ہمیں اندازہ ہے کہ غزہ کی سرحد کی طرف بڑھنے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ صہیونی فوج ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ کرسکتی ہے مگر اس کے باوجود وہ پوری تیار کے ساتھ وہاں آئے ہیں۔
الحاجہ ام کامل غزہ کی مشرقی سرحد کی طرف آنے والی واحد خاتون نہیں بلکہ وہ ان ہزاروں خاندانوں میں سے ایک ہیں جو اپنی فلسطینی شناخت کے دفاع اور آبائی علاوں کی طرف واپسی کے لیے سراپا جدو جہد ہیں۔
صہیونی ھیبت پر کاری ضرب
فلسطینی تجزیہ نگار ایمن الرفاتی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں فلسطینیوں نےغزہ کی مشرقی سرحد کی طرف جرات مندانہ مارچ کرکے صہیونی ریاست کے ھیبت کا تابوت توڑ دیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب روز مرہ کی بنیاد پر فلسطینی سرحد کی طرف مارچ کرتے ہیں۔ صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کو سرحد کے قریب آنے سے روکنے کی جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں وہ سب غارت اور رائے گاں گئی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ایمن الرفاتی نے کہا کہ غزہ کی سرحد کے قریب خیمہ زن فلسطینیوں نے احتجاج کو ایک تفریح میں تبدیل کر دیا ہے۔ خیموں میں فلسطینی شادی کی تقریبات منعقد کررہےہیں۔ صہیونی ریاست فلسطینیوں کی یہ مساعی حیران کن ہیں۔ خیموں میں فلسطینیوں کی شادی بیاہ جیسی تقریبات نے فلسطینیوں کو مزید بے خوف اور جرات مند بنا دیا ہے اور سرحد پر فلسطینیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
خیمہ زن فلسطینیوں کے درمیان چھابڑی فروش اور مختلف چیزیں فروخت کرنے والے فلسطینی بھی موجود ہیں۔ کوئی آئیس کریم فروخت کرتا ہے اور کوئی دوسری چیزیں وہاں پر بیچ رہا ہے۔