جمعه 15/نوامبر/2024

’الشیخ احمد یاسین نے نو سال قید تنہائی میں کیسے گذارے؟

جمعہ 23-مارچ-2018

اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے بانی اور فلسطینی قوم کے روحانی پیشوا الشیخ احمد یاسین کو ہم سے جدا ہوئے 13 سال ہوچکے ہیں۔ 22 مارچ 2017ء کو ان کی تیرہویں برسی منائی گئی۔

اس موقع پرشہید فلسطینی لیڈر کی زندگی اور حالات واقعات پر مبنی رپورٹس کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔

اسی ضمن میں مرکز اطلاعات فلسطین نے الشیخ شہید احمد یاسین کے جیل کے ایک ساتھی سے بھی ان کے تاثرات معلوم کیے ہیں۔

الشیخ احمد یاسین شہید مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے علاقے میں قائم’کفار یونا‘ نامی حراستی مرکز میں قید ہے۔ انہوں نے اس عقوبت خانے میں 9 سال کا عرصہ گذارا جس میں سے بیشتر وقت وہ قید تنہائی کا شکار رہے۔

ان کے ساتھ اس جیل میں کئی دوسرے فلسطینی بھی موجود تھے جن میں سے بعض آج جیلوں سے باہر ہیں۔ الشیخ احمد یاسین شہید کے ساتھ جیل میں وقت گذارنے والے  اسیران میں سابق اسیر نضال ابو سعادہ آج بھی حیات ہیں۔ انہوں نے مسلسل تین ماہ تک الشیخ کے ساتھ جیل میں نہ صرف وقت گذارا بلکہ ان کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔

’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات چیت کرتے ہوئے ابو سعادہ نے بتایا کہ الشیخ احمد یاسین کی رفاقت میں گذرا وقت آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ ان کے ساتھ بیتے لمحات کی کچھ یادیں ایسی بھی ہیں جو آج تک پردہ راز میں رہی ہیں اور وہ کسی کے سامنے بیان نہیں کی گئیں۔

کبھی نہ بھولنے والی پہلی ملاقات

باون سالہ الشیخ نضال رضوان حسین ابو سعادہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس وقت بے حد خوشی ہوئی ہے ’کفاریونا‘ جیل میں الشیخ احمد یاسین کی خدمت کے لیے اسرائیلی انتظامیہ نے اسیران کو اجازت دی۔اس سے قبل الشیخ احمد یاسین کی دیکھ بحال اسرائیلی پولیس یا دوسرے افراد کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ الشیخ احمد یاسین سے پہلی ملاقات ہمارے لیے ایسی خوش کن تھی گویا ہم دشمن کی قید سے رہا ہوگئے ہیں۔

الشیخ احمد یاسین قید تنہائی میں تھے مگر وہ دن میں ایک گھنٹے کے لیے اپنے عقوبت خانے سے باہر لائے گئے تو میری نظران پر پڑی۔ میں لپک کر ان کی طرف بڑھا۔ ان کے ہاتھوں اور پیشانی کو بوسہ دیا۔ الشیخ احمد یاسین کے چہرے پربھی خوشی کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے۔

الشیخ احمد یاسین معذور ہونے کے ساتھ ساتھ ان دنوں علیل بھی تھے مگر اس کے باوجود ان کی وقت کی پابندی ہمارے لیے ایک نمونہ عمل تھی۔ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ عبادت اور دعا میں گذارتے۔ باقاعدگی کے ساتھ پانچوں نمازیں ادا کرتے۔ قیام اللیل کا اہتمام کرتے اور رات کے آخری بیداری کے بعد تہجد کی نماز ادا کرتے اور نماز فجر تک تلاوت کلام پاک کرتے۔ نماز فجرکے بعد صبح کا کھانا آنے تک آرام کرتے۔ دن کے اوقات میں وہ روز مرہ اخبارات کا مطالعہ کرتے۔ الشیخ ایک زیرک اور کثیرالمطالعہ شخصیت تھے۔ ہمارے لیے وہ معلومات کا ایک انسائیکلو پیڈیا تھے۔ مذہب ، سائنس، ثقافت، تاریخ، جغرافیا اور دیگر مروجہ علوم پران کی دسترس ہمارے لیے قابل رشک تھی۔

ابو سعادہ کا کہنا ہے کہ الشیخ کے ساتھ نشت وبرخاست میں ہرطرح کے موضوعات پر بات ہوتی۔ فقہ، سیاست، عسکری امور اور کئی دیگر موضوعات پر وہ تسلی بخش جواب دیتے۔

الشیخ احمد یاسین جسمانی معذوری کا شکارہونے اوراسیری کے باوجود ہشاش بشاش تھے۔ ان کے چہرے پرپریشانی، اکتاہٹ اور کمزوری کا کوئی نشان نہیں تھا۔ فلسطینیوں کے امام اور پیشوا ہونے کے باوجود الشیخ کا مزاج ہنسی مزاح سے بھرپور تھا۔ وہ خود بھی لطائف سنتے اور دوسروں کو دلچسپ لطائف سے محظوظ بھی کرتے۔ الشیخ یاسین ساتھی قیدیوں کو صبر کی تلقین کرتے اور کہتے صہیونی عدالتیں انہیں قید کی سزائیں دیتے ہیں مگر اللہ ان کی رہائی کے لیے جلد آسمان سے راستے کھولے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب الشیخ احمد یاسین تا حیات عمر قید کی سزا کا سامنا کررہے تھے۔

عزم و استقلال کا کوہ گراں

مرکز سے بات کرتے ہوئے الشیخ نضال ابو سعادہ نے کہا کہ الشیخ احمد یاسین شہید کئی بیماریوں کا شکار ہونے، جسمانی طور پر مفلوج ہونے کے باوجود پہاڑ جیسے بلند عزم کے مالک تھے۔ جیل میں ان کا وزن صرف 55 کلو گرام تھا۔ وہ دشمن سے قبل دوست تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب فلسطینی مجاھدین نے ’نخشون فکسمان‘ نامی اسرائیلی فوجی کو جنگی قیدی بنایا تواسرائیلی جیل انتظامیہ نے ان کے کمرے سے  شیشے کے پیالے اور برتن اٹھا لیے تھے۔

الشیخ احمد یاسین اس پر بہت برہم ہوئے اور کہا کہ اے ابو صہیب میرے لیے قلم اور کاغذ کا انتظام کرو میں جیل انتظامیہ کو مکتوب لکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو مکتوب لکھا جس میں اسے کہا کہ وہ ان کے کمرے سے اٹھائی گئی تمام اشیاء دوبارہ وہیں رکھیں۔ اگر خود نہیں دے سکتے تو میری جیب سے اس کا انتظام کریں۔ میں دوبارہ جیل انتظامیہ کی شکایت نہیں کرنا چاہتا۔

الشیخ نضال ابو سعادہ نے کہا کہ جب القسام بریگیڈ کے مجاھدین نے اسرائیلی فوجی لکسمان کو یرغمال بنایا تو اسرائیلی فوجی افسران اور انٹیلی جنس حکام کا الشیخ کے کمرے میں تانتا بندھ گیا۔ یہ سب الشیخ کے پاس آتے اور ان سے مطالبہ کرتے کہ اغواء کاروں کے نام مکتوب لکھیں جس میں انہیں یرغمالی فوجی کو رہا کرنے کا کہیں۔  مگر الشیخ یاسین نے صہیونیوں کے دباؤ اور لالچ کو یکسر مسترد کردیا اور کہا کہ وہ اس معاملے میں بالکل مداخلت کے روادار نہیں۔ مجاھدین نے جو کیا ہے وہ ٹھیک کیا ہے۔ القسام بریگیڈ کو معلوم ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ مجھے انہیں کسی ہدایت کی ضرورت نہیں۔ اس وقت اسرائیلی زندانوں میں ہزاروں فلسطینی قید ہیں۔ اس لیے ان سب کی رہائی القسام بریگیڈ کی ترجیح ہے۔

نضال ابو سعادہ کا کہنا ہے کہ الشیخ احمد یاسین شہید ایک صاحب کرامت ولی تھے۔ جیل میں ان کے ساتھ بیتے ایام میں ہم نے کچھ ایسے باتیں بھی نوٹ کیں جنہیں خرق عادت ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک بار وہ قیلولہ کے بعد بیدار ہوئے تو مجھے کہا فورا ٹی وی آن کرو کیونکہ اسرائیل میں کوئی بڑا واقعہ پیش آگیا ہے۔

میں نے جیسے ہی ٹی وی آن کیا تو اس پر تل ابیب میں ایک فدائی حملے کی خبر چل رہی تھی۔ یہ حملہ ’ڈیزنکوف‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔ تل ابیب میں واقع ’ڈیزنکوف‘ مرکز میں القسام بریگیڈ کے کارکن صالح صوی نے فدائی حملہ کر13 صہیونی جنہم واصل کرنے کے ساتھ دسیوں کو زخمی کردیا تھا۔

ہم حیرت زدہ تھے کہ الشیخ یاسین شہید کو اسرائیل میں کسی بڑے واقعے کی خبرکیسے ہوئی۔ ابو سعادہ کہتے ہیں کہ الشیخ احمد یاسین شہید کی جیل میں تین ماہ خدمت ان کے لیے باعث اعزاز و افتخار ہے اور انہیں اس بات پر فخر ہے زندگی کے کچھ ایام انہوں نے اس عظیم  ہستی کی خدمت میں گذارے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی