روس کے صدر ولادیمر پوتین نے اتوار کو ملک میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس فتح کے بعد ولادیمر پوتن مزید چھ سال تک روس کے صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیں گے۔
روس کے سینٹرل الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخاب میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی زیادہ تر گنتی مکمل ہونے کے بعد پوتین نے 76 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
روس کے اپوزیشن رہنما اور پوتین کے سب سے بڑے حریف الیکسی نیوالنی پر ان انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔
انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ماسکو میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پوتین نے کہا کہ ووٹروں نے ان کی گذشتہ چند سالوں کی کامیابیوں کو تسلیم کیا۔
روس کے صدارتی انتخابی نتائج کے مطابق پوتین کو گذشتہ صدارتی انتخاب کے مقابلے میں اس بار زیادہ ووٹ ملے جبکہ انھیں سنہ 2012 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں 64 فیصد ووٹ ملے تھے۔
روس کے سینٹرل الیکشن کمیشن کے مطابق ولادیمر پوتین کے قریبی حریف پیول گروڈینن کو اب تک 13.2 فیصد ووٹ ملے۔
ولادیمر پوتین کی انتخابی ٹیم کو ایک بڑے ٹرن آؤٹ کی امید تھی تاکہ انھیں ممکنہ طور پر مضبوط ترین مینڈیٹ حاصل ہو۔ ان کی انتخابی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’ناقابلِ یقین فتح ہے‘
روس کے صدارتی انتخاب میں پولنگ کے دن آزاد انتخابی نگرانی کے گروپ گولوس نے دھالندلی کے سینکڑوں الزامات عائد کیے ہیں تاہم سینٹرل الیکشن کمیشن کی سربراہ ایلا پامفیلوفا کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی سنگین انتخابی خلاف ورزی دائر نہیں کی گئی ہے۔
انھوں نے انتخابی خلاف ورزیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ’ہم نے ہر اس چیز کا تجزیہ اور نگرانی کی جو ہم کر سکتے تھے۔ شکر ہے کہ اب تک یہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔‘
خیال رہے کہ روس میں ایک ایسے وقت میں صدارتی انتخاب ہو رہے تھے جب اس کے برطانیہ کے ساتھ سفارتی معاملات تناؤ کا شکار ہیں۔
روس نے برطانیہ میں روسی انٹیلیجنس افسر اور ان کی بیٹی کو زہر دینے کے واقعے کے بعد پیدا ہونے والے تناؤ کے باعث 23 برطانوی سفارت کاروں کو ملک سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ روسی اقدام برطانیہ کی جانب سے اس کے 23 روسی سفارت کاروں کو ملک سے نکالنے کے اعلان پر ردعمل کے طور پر سامنے آیا۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے سیلیسبری میں سابق روسی انٹیلی جنس افسر اور ان کی بیٹی کو زہر دینے پر روس کے 23 سفارت کاروں کو ملک سے نکالنے کا اعلان کیا تھا۔