چھ دسمبر 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان سے قضیہ فلسطین ایک نئے اورفیصلہ کن موڑ میں داخل ہوگیا۔ اس اعلان نے یہ ثابت کردیا کہ امریکا القدس کے بارے میں یہودی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے تنازع کے سیاسی حل کے بجائے اسرائیل کا من پسند مذہبی حل مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
جمعہ سولہ مارچ 2018ء کو ’اعلان ٹرمپ‘ کے 100 دن مکمل ہوگئے۔ اس عرصے میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات نہ صرف تعطل کا شکار رہے بلکہ امریکا اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بھی سخت کشیدگی سامنے آنے لگی۔ گوکہ امریکا اور فلسطینی اتھارٹی کےدرمیان ماضی میں بھی تعلقات مثالی نہیں رہے مگر اب کی بار امریکی انتظامیہ ثابت کردیا ہے کہ وہ شفاف ثالث نہیں بن سکتا۔ ٹرمپ نے جمہوریت اور انسانی حقوق کا جو لبادہ اوڑھا ہے وہ صرف ایک ٹوپ ڈرامہ ہے۔
اعلان ٹرمپ کے فطری اثرات
القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے ’اعلان ٹرمپ‘ کے 100 دن پورے ہونے کے بعد کئی طرح کے سوالات نے جنم لیا۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے ان سوالات اور خدشات پر ماہرین سے بات کی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ فطری طورپر امریکی صدر کے اعلان القدس کے فلسطینیوں پر اثرات مرتب ہونا تھے۔ ایسا ہی ہوا۔ اس اعلان کے رد عمل میں فلسطینیوں میں یکجہتی کا عنصر کم اور افتراق کا زیادہ پایا گیا۔ عرب ممالک کی طرف سے ملی بھگت کا عنصر دیکھا گیا اور عالمی برادری بھی خاموشی سے حالات کا انتظار کرتی رہ گئی۔
تجزیہ نگار حسن حمودہ، جمال عمرو اور حسن حریشہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے رد عمل میں مزید انتظار سے کئی خدشات پیدا ہوئے۔ فلسطینیوں کی خاموشی اور عرب ممالک کی امریکا کی طرف داری سے امریکی فیصلہ مزید وسعت اختیار کرے گا۔ موجودہ حالات میں فلسطینیوں کو زیادہ وحدت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا تھا مگر بدقسمتی سے اعلان ٹرمپ کےبعد بھی فلسطینی ایسا نہ کرسکے۔
اثرات کی شکل
فلطسینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی اعلان القدس کا سب سے زیادہ فایدہ اسرائیل نے اٹھایا۔ ’اعلان ٹرمپ‘ نے اسرائیل کو فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کی کلین چٹ دے دی اور صہیونی ریاست کے سامنے فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کا دروازہ کھول دیا۔
عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کی رپورٹ کے مطابق بنجمن نیتن یاھو کی حکومت اور القدس کی اسرائیلی بلدیہ نے مشرقی بیت المقدس میں 14 ہزار نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔
اسرائیلی توسیع پسندی کا یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو اس طرح یہ القدس کو آبادی کے اعتبار سے یہودیوں کا گڑھ بنانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ اس طرح یہ اسرائیل اور یہودیوں کے مفاد کا سب سے بڑا منصوبہ بن جائے گا۔
تجزیہ نگار حمودہ کا کہناہے کہ اعلان ٹرمپ کے بعد القدس ہی نہیں بلکہ پورے قضیہ فلسطین کا تصفیہ کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عمرو کا کہنا ہے کہ ’اعلان ٹرمپ‘ اثرات نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ عرب ممالک کی طرف سے اعلانیہ اور غیراعلانیہ وفود کے القدس کے دورے جاری ہیں۔ ٹرمپ کےاعلان القدس سے عرب نیشنل ازم کی سلامتی خطرے میں پڑ چکی ہے۔
فلسطینی رکن اسمبلی حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ ’صدی کی ڈیل‘ اعلان القدس کی عمل شکل ہے۔ اس کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کا قضیہ ختم کیا جائے گا۔
فلسطینی مذاکرات پر طمانچہ
تجزیہ نگار عمرو کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے اعلان القدس سے فلسطینی سطح پر حقائق مسخ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اعلان ٹرمپ فلسطینی مذاکراتی مساعی پر ایک تازیانہ بن کر برسا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ امریکا فلسطینی قوم کے سامنے زیادہ بے نقاب ہو کرسمانے آیا ہے۔
حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی سیاسی سطح پر اعلان ٹرمپ کے خلاف کی جانے والی مساعی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو اعلان ٹرمپ کا سب سے زیادہ فایدہ اسرائیل کے انتہا پسند حلقوں کو ہوا ہے۔ کرپٹ نیتن یاھو کو اعلان ٹرمپ سے زیادہ تقویت دی گئی اور اس اعلان نے صہیونی انتہا پسندوں کو ایک نئی روح پھونک دی گئی۔ نیتن یاھو اور ان کے حواریوں کو مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔