چهارشنبه 30/آوریل/2025

’ٹرمپ کے اعلان القدس‘ کے 100 یوم اور عرب حکمرانوں کی بزدلی!

ہفتہ 17-مارچ-2018

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت قراردیے جانے کو ایک سوسے زاید دن گذرگئے ہیں۔ ٹرمپ کےاعلان القدس کے بعد وقتی طورپرعرب مُمالک اورعالم اسلام کی طرف سے عوامی سطح پر رد عمل سامنےآیا۔  فلسطین میں یہ رد عمل سب سے زیادہ اور مضبوط رہا۔ امریکی صدرٹرمپ کی طرف سے صدی کی ڈیل کا بھی اعلان کیا گیا۔ صدی کی ڈیل ایک پراسرار منصوبہ ہے۔ مگر عرب ممالک اور علاقائی سطح پر ٹرمپ کے اعلان القدس اور دیگر امریکی عزائم کی روک تھام کے لیے کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔

جہاں تک فلسطین کے سرکاری موقف کا تعلق ہے تو وہ واضح رہا۔ فلسطینی عوام اور حکومت نے امریکی اقدامات کومسترد کردیا۔ البتہ عرب ممالک موجودہ کیفیت میں گو مگوں کا شکارہیں۔کوئی عرب حکومت امریکی عزائم کی مزاحمت کے لیے آمادہ وتیار نہیں۔ عرب ممالک خود بھی اندرونی طورپر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور وہ عالمی چیلنجز یا علاقائی مسائل کے حل میں خود کو ناکام تصور کرتے ہیں۔

اتھارٹی اور صدی کی ڈیل

فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگارسے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کا ایک طبقہ خود کو امریکیوں تن خواہ دار خیال کرتا ہے۔ ان میں سے بعض کے دوسرے ممالک میں محلات اور جائیدادیں ہیں۔ انہیں وہاں سے لگژری گاڑیاں ملتی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے علاوہ عرب ممالک میں بیشتر حکمران امریکیوں کے باج گزار ہیں۔ وہ امریکی صدر کے صدی کی ڈیل کے منصوبے کی مزحمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

ڈاکٹر قاسم نے انکشاف کیا کہ امریکی انتظامیہ ایک محدود فلسطینی ریاست کے قیام کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ امریکیوں کے خیال میں جزیرہ نما سینا اور غزہ پر مشتمل ایک چھوٹی ریاست قائم کی جائے گی۔ دوسری جانب غرب اردن اور بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کردیا جائے گا۔

پروفیسر قاسم نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے قیام سے آج تک امریکیوں کے دباؤ کا شکار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق اور مطالبات کومضبوطی سے تھامنے کے بجائے امریکی طرف داری اور اسرائیل کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کیا۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے صدی کی ڈٰیل کے خلاف باضابطہ سرکاری موقف جاری نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ امریکا اپنی شرائط پر فلسطینی ریاست کا خواہاں ہے۔ یہ تمام شرائط قضیہ فلسطین کی خدمت نہیں بلکہ صہیونی ریاست کے دفاع اور اس کی سلامتی کے گرد گھومتی ہیں۔

ڈاکٹر عبدالستار قاسم کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی القدس کے بغیر فلسطینی ریاست کے امریکی تصور کو قبول کرلے گی۔ یہودی آباد کاری کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ ایسے میں فلسطینی قوم کے پاس وحدت اور مزاحمت کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچے گا۔ عرب ممالک سے کسی اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس وقت معدودے چند ممالک کے سوا باقی سب امریکی کاسہ لیس ہیں۔

قضیہ فلسطین کے تصفیے کا پلان

فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر نشات الاقطش نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتیں قضیہ فلسطین کے خلاف سازش، صہیونیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے اور فلسطین میں مغربی طاقتوں کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سازشیں اور سازشی منصوبے ایک صدی سے جاری ہیں۔ عرب ممالک کی طرف سے قضیہ فلسطین کے تصفیے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اس سازش میں عرب ممالک بھی برابر کے شریک ہیں۔ عرب ملکوں میں تبدیلی کی تحریکوں کو فوجی طاقت کے ذریعے کچل کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ عرب ممالک اپنی آمریت پر قائم ہیں۔ سعودی عرب نے سنہ 1936ء کے صہیونی منصوبے کےموافقت ظاہر کی ہے۔

ڈاکٹرالاقطش کا کہنا ہے کہ عرب ماملک کی القدس کے خلاف سازش ان کی لاپرواہی سے ظاہر ہوتی ہے۔ آج کے دور میں عرب حکومتوں کے نزدیک القدس کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ صہیونی ریاست ’2020‘ نامی پروجیکٹ کے تحت القدس سے 3 لاکھ فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے کی سازشیں کررہی ہے۔ القدس میں فلسطینیوں کی آبادی 20 فی صد تک کرنے کی سازش بھی امریکی سازشوں کا حصہ ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ بعض عرب حکومتوں نے اپنے ایجنٹ فلسطین بھیجے ہیں جو بیت المقدس میں سلوان اور باب الخلیل کے اطراف میں فلسطینیوں کی املاک خرید کر انہیں صہیونیوں کو دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر الاقطش کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کی حکومتیں اس لیے امریکا سے تعلق قائم رکھنا چاہتی ہیں تاکہ ان کے اقتدار قائم رہیں۔ ان ممالک کو اندازہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا سے دوستی کے بغیر ان کا اقتدار قائم نہیں رہ سکتا۔ انہیں ہرحال میں امریکا، اسرائیل اور دیگر صہیونیت نواز قوتوں کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔

عرب ممالک کی ایسی بزدلانہ پالیسی اور نامناسب حکمت عملی میں قضیہ فلسطین کا دفاع ممکن نہیں۔ امریکا اور صہیونیوں کے لیے قضیہ فلسطین کے خلاف سازش کا اس سے بہتر اس موقع نہیں۔  عرب حکومتیں ایک صدی سے اپنی اقوام کو آزادی کی افیون پلانی شروع کی ہے مگر حقیقی معنوں میں عرب ممالک کے حکمران خاندان اپنے عوام کو کھلم کھلا دھوکہ دے رہے ہیں۔

الاققش کاکہنا ہے کہ آنے والے پانچ سال میں بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ عرب بہار نےممالک میں بہت حد تک تبدیلی کردی ہے۔ عرب بہار ایک بار پھر سر اٹھائے گی، جمہوریت پھلے پھولے گی اور انشاءاللہ فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار ہوگی۔

مختصر لنک:

کاپی