امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیےجانے کےبعد اب تل ابیب میں موجود امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں امریکی انتظامیہ کے دو سینیر عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کااقدام رواں سال مئی میں فلسطین میں اسرائیلی ریاست کےقیام کی سالگرہ پر کیاجائے گا۔
تل ابیب سے سفارت خانے کی القدس منتقلی توامریکی حکومت کی نگرانی میں ہوگی مگرمیڈیا میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہےکہ امریکا کا ایک یہودی ارب پتی ’شیلڈون اڈلسن امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی پر اٹھنے والے اٰخراجات برداشت کریں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں یہودی ارب پتی اڈلسن کی زندگی اوراس کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے لیے فنڈنگ کرنے والے یہودی ارب پتی کو "عقاب” کہا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ شیلڈون ایڈلسن القدس میں امریکی منصوبےکے لیےفنڈنگ کررہا ہے۔ اس کا شمار ان ارب پتی یہودیوں میں ہوتا ہے جو فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی میں دامے درمے سخنے تعاون کرتا رہا ہے۔
دولت کا بے تاج بادشاہ
84 سالہ شیلڈن اڈلسن امریکی شہر بوسٹن میںپید ہوئے۔ ان کے والدین لیتونیا اور ویلز کے تارکین وطن تھے۔ ڈلسن کو اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے ساتھ ساتھ یہودی
لابی کا سب سے بڑا مالی معاونت کار قرار دیا جاتا ہے۔
اڈلسن کیے والد برطانیہ سےنقل مکانی کرکے امریکا آئے جوکہ برطانوی نہیں بلکہ دراصل یوکرائنی اور لیتوانی یہودی والدین کی اولاد تھے۔ ان کے اجداد میں ایک صاحب ویلز میں ایک کوئلے کی کان میں ملازم تھے۔
اڈلسن کی ابتدئی زندگی غربت میں گذری۔ 12 سال کی عمر میں اس نےچچا سے200 ڈالر قرض لیا۔ اس رقم سے اس نے بوسٹن میں اخبار فروشی کےلیے سرکاری اجازت نامہ حاصل کیا۔
سنہ 1948ٕٕٕء میں 16 سال کی عمر میں اس نے مزید ایک ہزار ڈالر کی رقم قرض لی جس کی مدد سے اسی شہر میں سویٹس شاپ قائم کی۔
اس دوران اس نے ایک تعلیمی ادارے سے کامرس کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور پھر فوج میںبھرتی ہوگیاتاہم فوج میں اس کا دل نہ لگا اور وہ فوج کو چھوڑ کر دوبارہ تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگیا۔
اس دوران اڈلسن نے ایک کمپنی قائم جس میں صفائی کے آلات فروخت کرنا شروع کردیے۔ اس کےبعد اس نے تجارتی دوروں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اس کی دولت میں دن دگنی رات چگنی ترقی کرتی گئی اور جلد ہی اس کا شمار کروڑ پتی یہودیوں میں ہونے لگا حالانکہ اس کی عمر ابھی صرف تیس سال تھی۔ چند ہی سال میں اس کی دولت میں دو گنا اضافہ ہوگیا۔
سنہ2007ٕٕ میں اڈلسن نے اپنی اہلیہ میریام کی مدد سے ایک فلاحی ادارہ قائم کیا۔ اڈلسن فائونڈیشن کو اسرائیل کی سب سے بڑی سپورٹر تنظیم قرار دیاجاتا ہے۔
سن2007 میںاڈلسن فائونڈیشن نے”بیرتھ رائٹ” نامی ایک یہودی گروپ کو ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کی سنہ 2014ء میں اس تنظیم نے اسرئیلی ڈیفنس فورسز کو 5 ملین ڈالر کی رقم عطیہ کی۔
’عقاب‘ کہلوانے والے اڈلسن کا امریکی سیاست میں گہرا رسوخ ہے اسے ری پبلیکن کے سب سے بڑے مالی معاونت کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کےدوران اڈلسن سےنہ صرف بھرپور رقوم فراہم کیں بلکہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ اڈلسن نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی ہرموقع پر حمایت اور مدد کی۔ انہوں نے یسرائیل ھیوم اخبار میں اپنی طرف سے نیتن یاھو کی حمایت میں اشتہارت چھپوائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اڈلسن کے کئی کسینو ہیں۔ ان میںایک کسینو لاس ویگا ریاست میں ہے۔ اس کے علاوہ وہ لاس ویگاس سینڈر نامی کلب کے چیئرمین ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اڈلسن کی دولت 40 ملین ڈالر سےزیادہ ہے۔ رواں سال فروری میں بزنس جریدے فوربز نےاڈلسن کو 29 واں دنیا کا امیر ترین شخص قرار دیا تھا۔سنہ 2017ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی کو بڑھ چڑھ مالی مدد کی۔
مشکوک تعلقات
اڈلسن کو اسرائیل کا سب سے بڑا معاون قرار دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اڈلسن کے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے ساتھ بھی گہرے مگر خفیہ مراسم قائم ہیں۔
سنہ 2007ء کے بعد نیتن یاھو کو اقتدار میں لانے اور فائز رکھنے کےلئے اخبار ’یسرائیل ھیوم‘ کےذریعے بھرپور مہم چلائی گئی اور اس مہم میں اڈلسن اور اس کی تنظیم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ٹرمپ کے ساتھ قربت کی بناء پر اڈلسن نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حتیٰ کہ نیتن یاھو اور ٹرمپ کو یقین دلایا کہ وہ سفارت خانے کی القدس منتقلی کے لیےاپنی طرف سے بھرپور فنڈز فراہم کیے۔