فلسطین کے موجودہ وزیراعظم رامی الحمد اللہ اور فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیراعظم سلام فیاض کی پالیسیوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ دونوں اسرائیل کے لیے واری جانے کی پالیسی پر عمل پیرا اور غزہ کی پٹی کےعوام کے خلاف سیاسی انتقامی کی راہ پر چل رہے ہیں۔
حال ہی میں فلسطینی مرکزی کونسل کا رام اللہ میں اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون سمیت تمام شعبوں میں جاری تعاون ختم کرتے ہوئے اسرائیل سے معاہدے توڑ دے۔
اس مطالبے کے چند روز بعد رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم رامی الحمد اللہ اور اسرائیلی وزیرخزانہ موشے کحلون کے درمیان اہم ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں فلسطینی امور کےاسرائیلی رابطہ کار پولی مورڈ خائی بھی موجود تھے۔
اس ’دوستانہ‘ ملاقات سے قبل فلسطینی خاتون وزیر اقتصادیات عبیر عودہ اور ان کے اسرائیلی ہم منصب کے درمیان فرانس کے صدر مقام پیرس میں ملاقات ہوئی۔ فلسطینی حکومت اور اسرائیلی حکام کے درمیان یہ ملاقاتیں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب فلسطینی اتھارٹی غزہ کی پٹی کے اپنے ہی عوام کے خلاف انتقامی کارروائیوں پرعمل پیرا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان یہ ملاقاتیں ایک ایسے وقت میں جاری ہیں دوسری طرف فلسطینی مرکزی کونسل کی سفارشات کو نظرانداز کرنے کے ساتھ فلسطینی دھڑوں میں طے پائے مصالحتی معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔
رامی الحمد اللہ سلام فیاض کے نقش قدم پر
رامی الحمد اللہ کی غزہ اوراسرائیل کے حوالے پالیسی فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیراعظم سلام فیاض کی پالیسیوں کے عین مطابق ہیں۔ سنہ 2007ء میں فلسطینیوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد سلام فیاض کو فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ سلام فیاض کی غیرآئینی حکومت کو اسرائیل کی خوش نودی کے لیے عرب اور عالمی برادری کی حمایت حاصل ہوگئی۔ اس کے عوض فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مراسم برقرار رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں کرپشن کے الزامات کے بعد سلام فیاض کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اگرعالمی برادری کی مداخلت نہ ہوتی سلام فیاض کا ٹھکانہ جیل ہوتی۔
سلام فیاض تحریک فتح میں سیاسی اعتبار سے اس لیے زیادہ قابل احترام ہیں وہ مالی طور پر ایک مضبوط شخص ہیں۔ اسرائیل ایک سازش کے تحت سلام فیاض کو محمود عباس کے متبادل کے طور پر لانے کی کوششیں کرتا رہا ہے مگر صہیونی ریاست اپنے اس مشن میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
باردوی سرنگوں کا کھیت
ایک طرف فلسطینیوں کے مصالحتی مساعی تنزل کا شکار ہیں تو دوسری طرف رامی الحمد اللہ صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے دوستانہ مراسم کے فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے القدس کوصہیونی ریاست کا دارالحکومت قراردیے جانے کے بعد جہاں ایک طرف فلسطینیوں اسرائیل کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی وہیں رامی الحمد اللہ نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مراسم میں بھی تیزی شروع کردی ہے۔
سلام فیاض کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد تحریک فتح میں پارٹی قیادت کے معاملے پر بھی گہرے اختلافات پیدا ہوئے۔ اس دوران صدر محمود عباس اور ان کی اتھارٹی نے غزہ کی پٹی کےعوام کے خلاف بدترین انتقامی کارروائی شروع کردی۔
خود کش مشن
رامی الحمد للہ کو سربراہ حکومت بنائے جانے سے قبل محمود عباس متردد تھے کہ آیا وہ کس کو وزارت عظمیٰ کا منصب سونپیں۔ تاہم بعد میں صدر عباس انہیں یہ ذمہ داری سونپے پر قایل ہوگئے۔ مبصرین نے وزارت عظمیٰ کو سیاسی خود کشی قراردیا۔ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنھبالنے کے بعد رامی الحمد اللہ نے محمود عباس کے ایماء پر غزہ کی پٹی کے عوام کے خلاف سیاسی انتقام کی کاررائیاں شروع کردیں۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پیچیدہ حالات میں رامی الحمد للہ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کرنا ایک دانشور کو سیاسی اور انتظامی کشمکش میں الجھانے کی کوشش کرنے کے مترادف ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کافی عرصے سے سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی بحرانوں کی زد میں ہے، قریب ہے یہ بحران اس کے لیے سنگین مشکلات پیدا کردیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی حالیہ حالت پر صائب عریقات کا تبصرہ بر محل ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کا حقیقی صدر اسرائیلی وزیردفاع آوی گیڈورلائبرمین ہے اور وزیراعظم کے اختیارات اسرائیلی رابطہ کار موڈ خائی ادا کرر ہا ہے۔
الحمد اللہ کی حکومت کو تشکیل پائے تین سال ہوچکے ہیں۔ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اب تک الحمد اللہ کی حکومت قابل ذکر سیاسی اور اقتصادی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔
امریکا اور اسرائیل کا سرٹیفکیٹ
رامی الحمد اللہ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پرتعینات کرنے کے سے قبل انہیں یہ عہدہ سونپنے کے لیے امریکا اور اسرائیل سے باقاعدہ اس کاسرٹیفکیٹ حاصل کیا گیا۔ امریکا اور اسرائیل کی آشیر باد کے بعد رامی الحمد اللہ کو یہ عہدہ سونپا گیا۔ اس وقت جان کیری امریکی وزیرخارجہ تھے۔ ان کی باضابطہ منظوری کے بعد فلسطین میں نئی حکومت تشکیل دی گئی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی رامی الحمد اللہ کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سونپے جانے سے مشرق وسطیٰ میں امن مساعی کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔
اس کے علاوہ اس وقت کے برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے بھی رامی الحمد اللہ کو ٹیلیفون کرکے ان کی حمایت حاصل کی گئی۔ انہوں نے الحمد اللہ کو مبارک باد پیش کی۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیھترین آشٹن نے بھی اپنی طرف سے حمایت کا اظہار کیا۔
اسرائیلی اخبارات نے بھی رامی الحمد اللہ کی تعیناتی کو مثبت قرار دیا اور لکھا کہ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ ہارٹز اور یدیعوت اخبارات نے رامی الحمد اللہ کو ڈرامائی شخصیت قرار دیا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق رامی الحمد اللہ کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سونپے جانے سے محمود عباس کا موقف مضبوط ہوگا۔