پچیس فروری 1994ء صبح پانچ بجے نماز فجر کے لیے الخلیل شہر سے سیکڑوں فلسطینی مسلمان مسجد ابراہیمی میں موجود تھے۔ فرض نماز کی جماعت کھڑی ہوئی، پہلی رکعت ادا کی جاچکی اور دوسری رکعت میں رکوع کے بعد امام اور نمازی جیسے ہی سجدے میں جانے کے لیے نیچے ابھی جھکے نہیں تھے کہ اچانک کئی نمازیوں کی کھوپڑیاں گولیوں سے اڑا دی گئیں۔
آس پاس کے کئی نمازیوں کے شہید ہونے والوں کے درمیان میں بھی موجود تھا۔ ہرطرف سے چیخ پکار کے ساتھ تکبیر کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
یہ الفاظ مسجد ابراہیمی کے امام وخطیب الشیخ عادل ادریس المعروف ابو انیس نے حال ہی میں آج سے 24 سال قبل مسجد ابراہیمی میں ہونے والے قتل عام کی برسی کےموقع پر کہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الشیخ ادریس نے کہا کہ گولیاں ہمارے سروں کے اوپر سے گذر تھیں۔ کئی شہداء کے سرگولیوں سے چھلنی تھے اور کئی زخمی مسجد کی قالینوں پر تڑپ رہے تھے۔
پچیس فروری سنہ 1994ء بہ مطابق 15 رمضان 1415ھ کو یہودی دہشت گرد بارکھ گولڈچائن مسجد کے ایک ستون کے پیچھے چھپ کر بیٹھا تھا۔ اس نے مسجد میں نمازیوں کے قتل عام کی دہشت گردی کا فیصلہ کررکھا تھا۔
جب گولڈچائن نے مسجد میں 29 نمازی شہید کردیے تھےتو صہیونی فوج نے مسجد ابراہیمی کو فلسطینی نمازیوں کے لیے بند کردیا۔ اسرائیلی دہشت گردی کے باعث فلسطینی نمازی مسجد ابراہیمی سے باہر بھی نہ جاسکے جس کے باعث زخمیوں کے علاج معالجے میں بھی شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
اگلے روز جب شہداء کی تدفین کی جانے لگی تو صہیونی فوج نے جنازے کے جلوسوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ یہ کاررائی اسرائیلی فوج کی منظم ریاستی دہشت گردی تھی جسکے نتیجے میں شہداء کی تعداد 50 ہوگئی اور 150 شہری زخمی ہوئے۔
الخلیل ارض مقدس
ارض فلسطین کو بجا طورپر انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس ارض پاک کو یہ نام بلا وجہ نہیں ملا بلکہ یہاں کی مٹی میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور بنی اسرائیل کے دسیوں عظیم المرتبت پیغمبر آسودہ خاک ہیں۔ انہی بزرگ ہستیوں کی نسبت سے یہ اسلام کے پرانوار مقدس مقامات سے بھی بھرپور ہے مگردرندہ صفت صہیونیوں کی وحشت وبربریت کا نشانہ جہاں فلسطینی قوم ہے وہیں یہ مقدس مقامات بھی ان کا خاص نشانہ ہیں۔
فلسطین کے ان گنت مقدس مقامات میں خطہ ارضی میں حرمین شریفین کے بعد فلسطین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ وکعبہ موجود ہے۔ قبلہ اول کے خلاف سال ہا سال سے جاری یہودی و نصارایٰ کی سازشوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کے دوسرے مقدس ترین مقامات بھی خطرے میں ہیں۔ انہی میں دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں واقع تاریخی جامع مسجد ابراہیمی جسے ’حرم ابراہیمی‘ بھی کہا جاتا ہے فلسطین میں قبلہ اول کے بعد دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطین میں یہودی اور صہیونی سرطان کے سرائیت کرنے کے بعد فطری طورپر وہاں کے دوسرے مقدس مقامات کی طرح مسجد ابراہیمی بھی صہیونیوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔
فلسطین میں سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب ۔ اسرائیل جنگ کے دوران صہیونی غاصب افواج نے غرب اردن کے شہرالخلیل پرغاصبانہ قبضہ کیا تو یہ مسجد بھی صہیونیوں کے نرغے میں آگئی تھی۔ اس کے بعد اس مسجد کو تقسیم یا مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے خوفناک سازشیں جاری رہیں۔ یہاں تک کہ سنہ 1994ء کا وہ منحوس اور مکروہ وقت بھی آن پہنچا جب ایک انتہا پسند یہودی دہشت گرد گولڈ چائن نے مسجد میں گھس کرنماز میں کھڑے فرزندان توحید پراندھا دھند گولیاں برسائیں۔ یہودی درندے کی وحشیانہ فائرنگ سے 29 نمازی حالت سجدہ میں جام شہادت نوش کرگئے جب کہ 150 شدید زخمی ہوئے۔ یہودی دہشت گرد باروکھ گولڈ چائن نے نہتے نمازیوں پر500 گولیاں برسائی تھیں۔ تاریخ انسانی کی اس بدترین بربریت کے بعد صہیونیوں نے اگلی چال یہ چلی کہ مسجد ابراہیمی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کردیا جائے۔ یوں اس مسجد کے آدھے سے زاید حصے کو یہودیوں نے غصب کرلیا اور اسے یہودی انتہا پسندوں کی عبادت کے لیے مختص کرتے ہوئے اس میں فلسطینیوں کے داخلے پرپابندی عاید کردی۔
جگہ کا تنازع
مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کے سفاکانہ قتل عام کے بعد صہیونی حکومت نے اس کی تحقیقات کے لیے ’شمغار کمیٹی‘ کے نام سے ایک کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے قاتل یہودی کے خلاف کارروائی کے بجائے مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ فلسطینی مسلمانوں پر زبردستی مسلط کیا گیا۔ شمغار کمیشن نے مسجد کا 56 فی صد حصہ یہودیوں کو اور 44 فی صد فلسطینیوں کو دیا تاکہ مسجد پر یہودیوں کی بالا دستی قائم رکھی جاسکے۔ کمیشن کے فیصلے کے تحت مسجد کے یعقوبیہ، الیوسفیہ، العنبر، سدنہ ہال اور لائبریری یہودیوں کو دے دیئے گئے اور صرف الاسحاقیہ کا مقام فلسطینیوں کو دیا گیا۔
اس فیصلے کے بعد فلسطینی شہری صبح تین بجے سے رات نو بجے تک اپنے حصے کی مسجد میں عبادت کرسکتے ہیں۔ تاہم یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر پوری مسجد یہودیوں کے قبضے میں ہوتی ہے۔
اذان پر قدغنیں
ابو الفیلات کا کہنا ہے کہ جب سے اسرائیل نے مسجد ابراہیمی پرقبضہ کیا ہے اس کے بعد سے آج تک اس مسجد میں مسلمانوں کو نماز مغرب کی اذان کی اجازت نہیں دی گئی۔ عید کے ایام میں اگرچہ یہ مسجد مسلمانوں کے لیے کھولی جاتی ہے مگراذان کی پابندی برقرار رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ میں مسجد میں 155 بار اذان ہونی چاہیے مگر اسرائیلی انتظامیہ کی ناروا پابندیوں کے باعث 50 سے 70 بار ہی اذان دی جاسکتی ہے۔ باقی نمازوں کے لیے اذانوں کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب بھی مسجد میں اذان دینا ہوتی ہے تو اسرائیلی انتظامیہ سے اس کی باضابطہ اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہودی فوجیوں کی مرضی ہوتی ہے چاہے وہ اجازت دیں چاہے نہ دیں۔
فلسطینی نمازیوں کا قاتل کون؟
باروکھ گولڈ چائن نےجب مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کا قتل عام کیا تو اس وقت اس کی عمر 42 سال تھی۔ اس کا شمار یہودیوں کی ایک شدت پسند مذہبی جماعت ’کاخ‘ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ وہ سنہ 1980ء کو امریکا سے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں قائم ’کریات اربع‘کالونی میں آباد ہوا۔
جب ایک یہودی مذہبی پیشوا’،موشے لیفنگر‘ نے اسے پوچھا کہ آیا اسے مسجد میں نمازیوں کا قتل عام کرنے پر کوئی افسوس یا شرمندگی ہےتو اس کا جواب تھا کہ مجھے مکھی یا مچھر کو مارنے پر جتنی شرمندگی ہوتی ہے، عربوں اور مسلمانوں کو قتل کرکے اتنی شرمندگی اور افسوس بھی نہیں ہوا۔
فلسطینی نمازیوں کے قتل گولڈ چائن کو یہودیوں میں ایک مقدس ہستی کا درجہ حاصل ہے۔ یہودیوں نےاس مجرم کا مزار بنا رکھا ہے اور اس کی سیکیورٹی پر یہودی فوجیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
مسجد ابراہیمی کی تاریخ
فلسطینی مورخین کے مطابق تاریخی مصادر ومآخذ سے پتا چلتاہے کہ الخلیل شہر اور مسجد ابراہیمی کی تاریخ کا آغاز جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس شہر میں ایک سیاسی پناہ گزین کی حیثیت سے آمد کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ قرآن پاک کی سورہ ’’الانبیاء‘‘ کی آیت 71 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :’اور ہم نے اسے[ابراہیم] اور لوط کو اس سرزمین میں پناہ دی جسے ہم نے تمام جہاںوں کے لیے بابرکت بنایا تھا‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کئی سال تک یہاں ایک مہمان کی حیثیت سے مقیم رہے۔ حضرت ابراہیم چونکہ کنعانی عربوں کے مہمان تھےیہی وجہ ہے وہ انہیں کے پاس رہے۔ ان کی اس شہرمیں آمد نے الخلیل کوایک نئی شناخت دی اور ابراہیم خلیل اللہ کے نام سے نسبت ہونے کی بدولت یہ شہر’’مدینۃ الخلیل‘‘ قرار پایا۔
تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ الخلیل شہر میں جہاں آج مسجد ابراہیمی بنائی گئی ہے اس کے نیچے ایک غار تھی جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ سارہ کو 3800 سال قبل یہاں دفن کیا گیا۔ بعد ازاں اسی غار میں حضرت ابراہیم خود، سیدنا اسحق اوران کی بیوی اور سیدنا یعقوب علیہ السلام اور ان کی بیوی بھی وہیں آسودہ خاک ہیں۔
مسجد ابراہیمی کے پہلو میں کئی جلیل القدر انبیاء کرام آسودہ خاک ہیں۔ ان میں سیدنا یعقوب اور ان کی اہلیہ، سیدنا ابراہیم اور ان کی اہلیہ سارہ، سیدنا یوسف علیہ السلام اور کئی دیگر بزرگ ہستیاں شامل ہیں۔
صہیونی یلغار
فلسطین میں یہودیوں کے غاصبانہ تسلط کے قیام کے بعد مسجد ابراہیمی مسجد انتہا پسند صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کے نشانے پرہے۔ مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الحاج منذر رفیق ابو الفیلات کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد مسجد ابراہیمی اور اس میں نماز کے لیے آنے والے فلسطینی بار ہا صہیونیوں کے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
سنہ 1970ء میں شدت پسند یہودی موشے ڈایان کے مسجد میں داخلے کے بعد اس کے نیچے غار کو بند کردیا گیا۔ سنہ 1976ء میں یہودیوں شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر قرآن کریم کے کئی نسخے نذرآتش کیے جس کے بعد فلسطین سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور کئی روز تک اسرائیل اور یہودیوں کی سازشوں کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔
سنہ 1994ء مسجد ابراہیمی کے حوالے سے نہایت المناک سال ہے کیونکہ اسی برس باروکھ گولڈچائن نامی ایک یہودی دہشت گرد نے مسجد میں نماز فجر کی ادائی میں مصروف نمازیوں کوگولیوں سے بھون ڈالا جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید اور دسیوں زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل صہیونی حکام نے سنہ 1987ء میں مسجد کے تمام داخلی اور خارجی دروازوں پر الیکٹرانک آلات، کیمرے اور جاسوسی کے دیگر آلات نصب کرکے اس پرقبضہ مضبوط کرنے کی سازش کی تھی۔