اسرائیل کی فوجی عدالت ’سالم‘ نے اسلامی جہاد کے سرکردہ رہ نما الشیخ خضر عدنان کے خلاف جاری مقدمہ کی سماعت 28 فروری 2018ء تک ملتوی کردی ہے۔
اگلی سماعت میں الشیخ عدنان کے وکیل کو اپنے دلائل پیش کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ اسرائیلی پراسیکیوٹر کی طرف سے عاید کردہ الزامات کا جائزہ لیاجائے گا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق شہداء فاؤنڈیشن کی طرف سے جاری کرہ ایک بیان میں کیا ہے کہ الشیخ عدنان کو اسرائیلی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان کےخلاف عاید کردہ الزمات کی سماعت کی گئی۔
اس موقع پر اسرائیلی فوجی پراسیکیوٹر نے الشیخ خضرعدنان پر اسلامی جہاد کے لیے کام کرنے کا الزام عاید کیا اور کا کہ عدنان اسلامی جہاد کے سرکردہ رکن ہیں اور اسرائیل کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
شہداء فاؤنڈیشن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ الشیخ خضرعدنان کو 11 دسمبر 2017 ء کو جنین سے حراست میں لیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت قابض فوج نے اسیر کے اہل خانہ اور اہلیہ پر وحشیانہ تشدد کی بھی کوشش کی تھی۔ قابض فوج نے الشیخ عدنان کو زمین پر پٹخنے کے بعد اس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیے تھے اور اس کے بعد ٹارچر سیل میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں ان پر تشدد کیا گیا۔
خیال رہے کہ الشیخ خضرعدنان کی عمر 40 سال ہے اور وہ چھ بچوں کے باپ ہیں۔ انہیں اسرائیلی فوج باربار حراست میں لیتی اور انہیں اسلامی جہاد کے لیے کام کرنے کی پاداش میں قیدو بند میں ڈالا جاتا رہا ہے۔
خضرعدنان ان فلسطینیوں میں سر فہرست ہیں جو اپنی بلا جواز قید اور مظالم کے خلاف طویل بھوک ہڑتال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے 2014ء میں انتظامی قید کے خلاف مسلسل 66 دن تک بھوک ہڑتال کی تھی۔