امریکی بلیک میلنگ اور صہیونی ریاست کے دباؤ کے نتیجے میں سلووینیا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے لیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق سلووینیا کے صدر پوروٹ پاھور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ان کا ملک فلسطینی مملکت کو تسلیم نہیں کرے گا۔ فلسطین کو تسلیم کرنا فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پہلے سے جاری بحران کو مزید بڑھانے کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک ان کی حکومت کو فلسطین کو تسلیم کرنے کا مناسب موقع نہیں ملا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ سوموار کو سلووینیا کے وزیر خارجہ کارل اریافیک نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کے ملک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے تاہم آج صدر پاھور نے کہا کہ وہ موجودہ حالات میں فلسطین کو تسلیم نہیں کرسکتے۔
اریافیک نے یہ اعلان برسلز میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کے بعد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سلوینیا کی پارلیمنٹ آئندہ موسم بہار میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کرے گی۔
آئندہ بدھ کو وزیر خارجہ پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی کا اہم اجلاس بھی بلائیں گے جس میں مارچ یا اپریل میں فلسطینی مملکت کو تسلیم کرنے کا بل منظور کرنے پر غور کیا جائے گا۔ تاہم صدر کے بیان کے بعد یہ پیش رفت آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔
سوموار کو اسرائیل میں متعین سلووینیا کی سفیر ’بربارہ سوسنیک‘ نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے رد عمل مین لیوبلیانا کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونا 1 پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلوینیا 2014ء سے فلسطین کو تسلیم کرنے پرغور کررہا تھا۔
خیال رہے کہ یورپی یونین کے 28 رکن ملکوں میں سے9 نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا ہے۔ ان میں سویڈن جیسا اہم ملک بھی شامل ہے۔ دیگر یورپی ملکوں میں جمہوریہ چیک، سلواکیا، ہنگری، پولینڈ، بلغاریا، رومانیا، مالٹا اور قبرص شامل ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے سلوانیا کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان واپس لینے کے پیچھے امریکا کی بلیک میلنگ اور صہیونی ریاست کا دباؤ ہوسکتا ہے۔