چهارشنبه 30/آوریل/2025

’قبلہ اول سے محبت کی پاداش میں اتھارٹی نے اذیتیں دیں‘

جمعرات 25-جنوری-2018

فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کے ماتحت نام نہاد سیکیورٹی اداروں کا چال چلن اور پالیسی صہیونی ریاست کی ظالمانہ پالیسی سے زیادہ مختلف نہیں۔ صہیونی دشمن بھی فلسطینی شہریوں کو قبلہ اول سے محبت کرنے اور اس کی ازادی کے لیے جدو جہد کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور فلسطینی اتھارٹی کی پولیس بھی قبلہ اول کے لیے جدو جہد کرنے والے کارکنوں کو انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بناتی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قبلہ اول کے دفاع کے لیے کام کرنے والے  کارکنوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کی تازہ مثال نوجوان سماجی کارکن قتیبہ عازم ہیں جنہیں عباس ملیشیا نے حراست میں لینے کے بعد انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ قبلہ اول کے دفاع کے لیے سرگرم تھے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے نوجوان سماجی کارکن قتیبہ عازم نے بتایا کہ عباس ملیشیا نے اسے گرفتار کرکے کئی روز تک اریحا کے عقوبت خانے میں رکھا۔ دوران حراست عباس ملیشیا کے تفتیش کار اسے بار بار کہتے کہ میں قبلہ اول کے دفاع کے لیے کیوں سرگرم ہوں۔ اس دوران قبلہ اول کے لیے کام کرنے کی پاداش میں اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

نصرت الاقصیٰ

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے عازم نے بتایا کہ اسے عباس ملیشیا کے حکام کا فون آیا جس میں مجھے ایک سیکیورٹی مرکز میں طلب کیا گیا۔ میں فوری طورپر سیکیورٹی مرکز پہنچ گیا۔ مجھے وہاں پر گرفتار کرلیا گیا۔ مجھے گرفتاری کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی اور بغیر کسی وضاحت کے مجھے جنید نامی حراستی مرکز میں ڈال ڈیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میرا جرم صرف یہ تھا کہ میں قبلہ اول کے لیے ہونے والی عوامی سرگرمیوں میں حصہ لیتا تھا۔ دوران حراست مجھے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور یہ الزام عاید کیا جاتا تھا کہ میں ایک مخصوص گروپ کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہوں۔ تفتیش کاروں کا اشارہ حماس کی جانب تھا۔

تفتیش کے دوران عباس ملیشیا نے کئی پرتشدد حربے استعمال کیے۔ مجھے ایک ناقابل رہائش جگہ پر ڈال دیا گیا۔ وہاں پربھی تفتیش کار مجھے تشدد کرتے اور چہرے پر تھپڑے مارے جاتے۔

عازم نے بتایا کہ جس کال کوٹھڑی میں مجھے ڈالا گیا تھا اس میں کہیں سے ہوا اور روشنی کا گذر نہیں ہوتا تھا۔ میں کئی روز تک ٹھنڈے فرش پر پڑا رہا میرے پاس اوڑھنے اور بچھونے کے لیے کوئی کپڑا نہیں تھا۔

ہولناک تشدد

ایک سوال کے جواب میں قتینہ عازم نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی، دونوں ہاتھ پشت پر باندھے اور مجھے ایک گیلے اور ٹھنڈے فرش پر اسی حالت میں بٹھا دیا گیا۔ وہاں میں دماغ پھٹنانے والی بدبو سونگ سکتا تھا۔ عباس ملیشیا نے کئی روز تک مجھے اسی حالت میں رکھا۔ جب میں نے ان کی مرضی کے جواب نہ دیے تو انہوں نے تشدد کا سلسلہ مزید سخت کردیا تاکہ میں تفتیش کاروں کی طرف سے عاید کردہ تمام الزامات کا اعتراف کرلوں۔

انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے ان کے ساتھ تعاون نہ کیا اور ان کے من پسند جواب نہ دیے تو وہ تشدد کے آخری درجے کابھی استعمال کریں گے۔ مجھے وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے محروم کردیا گیا۔ حتیٰ کہ اہل خانہ کو بھی ملنے نہیں دیا گیا۔

قتیبہ عازم کا کہنا ہے کہ جب میں نے عباس ملیشیا کے اس بدترین تشدد کا سامنا کیا تو مجھے ایسے لگا کہ قبلہ اول کا دفاع  فلسطینی اتھارٹی کے ہاں بھی اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا کہ قابض اور غاصب صہیونی ریاست کے ہاں ہے۔ جس طرح کے مکروہ اور سفاکانہ حربے اسرائیلی فوج اور پولیس فلسطینی قیدیوں کے خلاف استعمال کرتی ہے عباس ملیشیا بھی ایسے ہی مکروہ حربے استعمال کرتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی