سال 2009ء فلسطینی دوشیزہ جمیلہ الھباش کے لیے ایک آزمائش کا سال تھا۔ 4 جنوری 2009ء کو اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجے میں جمیلہ دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئی۔ اس وقت اس کی عمر 15 سال تھی۔ دونوں ٹانگوں سے محروم ہونے اور جسم کا بقیہ حصہ زخمی ہونے کے علی الرغم جمیلہ الھباش نے امید سے رشتہ قائم رکھا۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں جمیلہ الھباش کی باہمت حوصلہ افزا داستان پر روشنی ڈالی ہے۔ جمیلہ اس وقت ایک پیشہ ور صحافیہ ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ’میں ٹی وی چینل پر نیوز کاسٹر لڑکیوں دیکھتی، ان کی حرکات، خبریں پڑھنے کے انداز، اشاروں اور دیگر امور کو بہ نظرغائر دیکھتی۔ میرے اندر سے میرا نفس مجھے آواز دیتا کہ ’جمیلہ تم کب اس مقام پر ہوگی؟‘۔
سنگین چیلنج کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ اور امید سے وابستگی کا جو جذبہ سادق جمیلہ الھباش کی زندگی میں ملتا وہ بہت سے لوگوں کے لیے ہمت افزائی اور حوصلے کا باعث ہے۔ جمیلہ اپنی معاصرلڑکیوں کے لیے بھی ایک زندہ نمونہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بچپن ہی سے میرا ایک خواب تھا۔ میں گھر پر ریڈیو سنتی اور حالات حاضرہ کو سنتی۔
معذوری مشن میں رکاوٹ نہ بنی
ایک سوال کے جواب میں جمیلہ الھباش نے کہا کہ میڈیا میں کام کرنا اور صحافت کے شعبے سے وابستگی کا بچپن کا خواب تھا مگر جب 2009ء میں صہیونی فوج کے جنگی طیاروں کی بمباری میں میری دونوں ٹانگیں کٹ گئیں تو مجھے اپنا وہ خواب ٹوٹتا نظر آیا۔ مگر اس کے باوجود میں نے مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔ میرا ضمیر کہتا تھا کہ میرا معذوری کے باوجود میرا مستقبل روشن ہے۔ معذوری کے باوجود میں نے اپنی کامیابی کو خود ڈیزائن کرنے اور آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
سنہ 2008..09ء کی جنگ نے جمیلہ الھباش کی زندگی الٹ کردی۔ اس وقت اس کی عمر پندرہ سال تھی۔ میزائل حملے نے جمیلہ کی دونوں ٹانگیں کاٹ ڈالی جس کے نتیجے میں وہ چلنے پھرنے سے محروم ہوگئی اور اس کا واحد سہارا وہیل چیئر رہ گیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے جمیلہ نے بتایا کہ جب میں میزائل حملے میں زخمی ہوگئی تو مجھے لگا کہ یہ واقعہ میرے خواب چکنا چور کردے گا۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندے مجھ سے ملنے آتے اور میں انہیں اپنے عزم کے بارے میں بتاتی۔ وہ میری حوصلہ افزائی کرتے اور یقین دہانی کراتے کہ میر صحت یاب ہونے کے بعد وہ صحات کے میدان میں میری مدد کریں گے۔
اس کا کہنا ہے کہ اللہ کا شکر ہے۔ میں چیلنج اور مشکل کا مقابلہ کرنے کو پسند کرتی ہوں۔ میں نے بہت سی مشکلات برداشت کی ہیں اور اپنے مشن اور منزل تک پہنچنے کے لیے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔
اپنے عزم اور مقصد سے لگن، اصرار اور صبر کے ساتھ کام نے مجھے اپنی منزل سے ہم کنار کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ میرے میرے خاندان نے بھی بھرپور میرا ساتھ دیا۔
خواب کو سچ کردکھایا
معذور مگر پرعزم فلسطینی صحافیہ نے بتایا کہ الجزیرہ ٹی وی کی ٹیم اس کے پاس آئی۔اس نے انہیں اپنے مشن کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ صحافی بننا چاہتی ہے۔ الجزیرہ کی ٹیم نے میرے لیے ایک ابلاغی کورس کا خصوصی اہتمام کیا۔
الجزیرہ کی زیرنگرانی میں نے اپنے خواب کو سچ کر دکھانے کا آغاز کیا اور آج وہ خواب حقیقت بن چکا ہے۔ الجزیرہ نے میرے ساتھ کیا وعدہ پوروا کیا اور مجھے ایک صحافیہ بنانے میں مدد کی۔ آج میں غزہ سے پوری دنیا کی نبض پکڑ سکتی ہوں۔
معذوری کے باوجود جمیلہ الھباش پیشہ وارانہ انداز میں صحافت سے وابستہ ہیں۔ اس کی سلسلہ وار رپورٹس’ان کی نبض‘ غزہ کی پٹی سے نشر کی جاتی ہیں۔ جمیلہ نے الجزیرہ کے مارننگ شو’ ھذا الصباح‘ کی تحت الجزیرہ انسٹیٹیوٹ میں رپورٹنگ کی پیشہ وارانہ تربیت حاصل کی۔