چهارشنبه 30/آوریل/2025

معذور فلسطینی کی شہادت،عالمی عدالت میں پیشی کے لیے شواہد جمع

منگل 16-جنوری-2018

فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے جنگی جرائم کی آزادانہ تحقیقات کرنے والی ایک کمیٹی نے بتایا ہے کہ چند ہفتے قبل غزہ کی پٹی میں ایک معذور فلسطینی کو شہید کیے جانے کے واقعے کے بعد اس واقعے کے شواہد اکھٹے کرنے کا سلسلہ مکمل کرلیا گیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق کمیٹی کے چیئرمین عماد الباز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ انہوں نے معذور فلسطینی ابراہیم ابو ثریا کی شہادت کے حوالے سے کافی شواہد اکھٹے کرلیے ہیں۔ شہید کے جسد خاکی کا پوسٹ مارٹم بھی کرلیا گیا ہے۔ اب وہ تمام شواہد کے ساتھ بین الاقوامی فوج داری عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی مساعی شروع کریں گے۔

الباز نے کہا کہ ابراہیم ابو ثریا کی شہادت کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف تمام ضروری اور ٹھوس شواہد جمع کرلیے گئے ہیں۔ اگلے مرحلے میں ہم ان شواہد کی بناء پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کریں گے تاکہ ایک معذور فلسطینی کو بے رحمی کے ساتھ شہید کیے جانے کے جرم کی تحقیقات کی جاسکیں اور مجرم صہیونیوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔

خیال رہے کہ اسرائیلی فوج نے آدھے جسم والے معذور فلسطینی ابراہیم ابو ثریا کو 15 دسمبر 2017ء کو گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔

ابو ثریا غزہ کی پٹی میں امریکی صدر کے اعلان القدس کے خلاف نکالی گئی ایک احتجاجی ریلی میں شریک تھے۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ ابراہیم وہیل چیئرپر تھے۔بزدل  اسرائیلی فوجیوں نے اسے قریب سے جا کر اس کے چہرے پر گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں ابو ثریا شہید ہوگئے تھے۔

فلسطینی انسانی حقوق کارکن الباز کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج کی جانب سے ابو ثریا کو دانستہ طور پر شہید کیا گیا۔ ایک بے ضرر اور معذور فلسطینی کو گولیاں مار کر شہید کرنا صہیونی دشمن کا سنگین جرم ہے اور اسے کسی صورت میں معاف نہیں کیا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابو ثریا کی شہادت نے صہیونی ریاست کی دہشت گردی، وحشت، بربریت اور درندگی کو ایک بار پھردنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔ ثابت ہوگیا کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی اور نسل پرستی کی بدترین اور وحشیانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیلی فوجی تمام ترانسانیت اور اخلاقیات سےعاری درندے ہیں جو کسی معذور احتجاجی کو بھی اس بزدلانہ طریقے سے شہید کرتے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی