امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ مجوزہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت القدس نہیں بلکہ ایک آفت زدہ اور پسماندہ قصبہ ’ابو دیس‘ ہو گا۔
میڈیا کے مطابق یہ تجویز امریکا کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے دی گئی ہے اور بہت سے ممالک اس تجویز سے طوعا وکرہا متفق ہیں۔
ابو دیس ایک قصبہ ہے جو جغرافیائی اعتبار سے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں واقع ہے۔ ابو دیس اور القدس کو اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار فاصل ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ اس قصبے کی مغربی سرحد مسجد اقصیٰ سے دو کلو میٹر دور ہے۔ یہ غرب اردن کے علاقوں سے بھی متصل ہے اور بیت المقدس گورنری میں شامل ہے۔
فلسطینی قانون دان اور مشرقی بیت المقدس میں دفاع اراضی کمیٹی کے چیئرمین بسام بحر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی ابو دیس قصبے کا رقبہ 32 ہزار دونم ہے۔ اس کے چار ہزار 500 دونم رقبے پر اسرائیل کی سول ایڈمنسٹریشن کے دفاتر اور دیگر عمارتیں قائم ہیں جب کہ قصبے کا ایک بڑا حصہ ’کیدار‘ اور معالیہ ادومیم کالونیوں کے لیے غصب کیا گیا ہے۔ قصبے کے مغرب میں دیوار فاصل ہے جس نے قصبے کو مزید دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔
بسام بحر کا کہنا ہے کہ ابو دیس میں فلسطینی باشندوں کی تعداد 15 ہزار ہے۔ جامعہ ابو دیس کی وجہ سے قصبے کی آبادی 25 ہزار نفوس تک پہنچ جاتی ہے کیونکہ القدس کے ہزاروں طلباء بھی اس قصبے میں آباد ہیں۔ قصبے کا ایک حصہ بحر مردار سے بھی ملتا ہے۔
اسرائیل کے ’2020‘ کے عظیم تر صہیونی ریاست کے منصوبے کے تحت ابو دیس کا ایک بڑا حصہ وہاں سے الگ کر دیا گیا ہے۔ قصبے کے مشرق میں یہودی کالونیاں تعمیر کی گئی ہیں۔’ اے 1‘ اسرائیلی پروجیکٹ کے تحت ابو دیس کی فلسطینی آبادی کو وہاں سے نکالنے کی سازشیں بھی زوروں پر ہیں۔ مستقبل میں یہ منصوبہ ابو دیس کی آبادی اور رقبے پر گہرے منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
ابو دیس کو تنہا کرنے کی کوشش
فلسطینی تجزیہ نگاربسام بحر کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک سازش کےتحت مشرقی بیت المقدس اورابو دیس کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ ابو دیس کی فلسطینی آبادی کو وہاں سے بے دخل کرنے کی سازش کررہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے ابو دیس کے پانچ ہزار فلسطینی باشندوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس طرح یہ منصوبہ ایک نیا آبادیاتی، سماجی، اقتصادی اور صحت کے بحران پیدا کرسکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بحر نے کہا کہ بنیادی طور پر ابو دیس مشرقی بیت المقدس کا حصہ ہے اور اسے القدس کی فلسطینی کالونیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دیوار فاصل سے قبل یہ قصبہ القدس سے محض پانچ منٹ کی مسافت پر تھا۔ یہ بیت حنینا اور شعفاط کالونیوں سے متصل ہے۔
ابو دیس کے فلسطینی باشندوں کی زندگی کا دارو مدار القدس پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ القدس کو ابو دیس کے فلسطینی باشندوں کے لیے شہ رگ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ابو دیس کے فلسطینی باشندوں کے اقتصادی، سماجی، صحت اور تعلیم کی تمام ضروریات القدس ہی میں پوری ہوتی ہیں۔ ابو دیس کے باشندے علاج کے لیے القدس کے اسپتالوں سے رجوع کرتے ہیں۔
بحر کا کہنا تھا کہ ابو دیس میں دیوار فاصل کی تعمیر کے بعد وہاں پر بنیادی سہولیات بالخصوص صحت کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ دیوار فاصل کی وجہ سے ابودیس کے مریض بروقت القدس نہیں پہنچ پاتے جس کے نتیجے میں کئی اموات ہوچکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ابو دیس اور غرب اردن کے شہروں میں بھی براہ راست رابطہ نہیں۔ اسرائیلی فوج نے جگہ جگہ چیک پوسٹیں اور کیمپ بنا رکھے ہیں۔ دیوار فاصل کے باوجود ابو دیس کے باشندے مختلف طریقوں سے دیوار عبور کر کے دوسرے فلسطینی علاقوں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔