اردنی پارلیمانن کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی نے باور کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد امریکا مشرق وسطیٰ کے امن عمل کا ثالث نہیں بلکہ فریق بن چکا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اردنی پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی کے ارکان نے ان خیالات کا اظہار اردن میں متعین برطانوی سفیر اڈورڈ اوکڈن سے ملاقات کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنےکے بعد امریکا کی غیرجانب دارانہ حیثیت ختم ہوچکی ہے اور وہ اب مسئلے کا فریق بن چکا ہے۔
اردنی ارکان پارلیمان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کو غیرانسانی، ظالمانہ اور جابرانہ قرار دیا اور کہا کہ القدس کو اسرائیل کے حوالے کرنا آسمانی مذاہب کی تعلیمات کی بھی توہین ہے۔
ارکان پارلیمان نے برطانوی سفیر سے مطالبہ کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جامع اور دیر پا قیام امن کے لیے اردن کی مساعی کی معاونت کرے۔
اس موقع پر برطانوی سفیر اوکڈن نے کہا کہ ان کے ملک کا القدس کے حوالے سے موقف واضح اور عالمی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔ ہم القدس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کےٹرمپ کے اقدام کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں امن کی مساعی کو آگے بڑھانے کےلیے ہرممکن اقدامات کرے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ برطانیہ اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ القدس منتقل نہیں کرے گا۔
خیال رہے کہ چھ دسمبر2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تھا جس پر عالمی برادری کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ اسرائیل اور گوئٹے مالا کے سوا کسی دوسرے ملک نے القدس کے بارے میں امریکی صدر کے اعلان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔