امریکا کی غیر مشروط اور غیر مسبوق سیاسی حمایت کی آڑ میں صہیونی ریاست فلسطین کےدریائے اردن کے مغربی کنارے میں اپنا مستقبل کا ویژن مسلط کرنے کے لیے دن رات کوشاں وسرگرداں ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پورا خطہ کشمکشوں کی زد میں ہے۔ نئے اتحاد بن اور پرانے ٹوٹ رہے ہیں۔ فلسطینی بھی مصالحت کی گاڑی کو آہستہ آہستہ دھکا دے رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد اب امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کی سازشیں جاری ہیں۔ انہی سازشوں کے جلو میں صہیونی ریاست غرب اردن کو فلسطین ریاست سے الگ کرنے اور اسے صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی سازشیں بھی تیزی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔
غرب اردن کا آبادیاتی نقشہ تبدیل کرنے کے لیے قدم قدم پر یہودی بستیوں کی تعمیر جاری ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں یہودیوں کے لیے گھروں کی تعمیر جاری ہے۔
صہیونی کنیسٹ نے بھی پہلی بار القدس کو یہودیانے، اس کے دونوں حصوں کویکجا کرنے، غرب اردن اور بیت المقدس کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے قانون سازی کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ حال ہی میں القدس کو مذاکرات سے مستثنیٰ کرنے کے لیے ایک نیا قانون منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت جب تک پارلیمنٹ کے 120 میں سے 80 ارکان حمایت نہ کریں اس وقت تک القدس پر فلسطینیوں سمیت کسی بھی فریق کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
حال ہی میں اسرائیل کی انتہا پسند حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ نے ایک نیا اعلان جاری کیا جس میں کہا گیا غرب اردن میں قائم کی گئی یہودی کالونیوں پر اسرائیل کا سرکاری قانون لاگو کیا جائے گا۔ اس اعلان کا مقصد مقبوضہ مغربی کنارے کواسرائیل میں شامل کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ مگر اسرائیلی کنیسٹ کے یہ نام نہاد قانونی حربے اور لیکوڈ کی سازشیں عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ لیکوڈ کا غرب اردن پر آئینی عمل داری کا اعلان غرب اردن کے سیکٹر C‘ جو کہ غرب اردن کا 62 فی صد ہے کو صہیونی ریاست میں شامل کرنا ہے۔
فلسطینی ریاست کا سقوط
فلسطینی تجزیہ نگار اور القدس اسٹڈی سینٹر و نقشہ جات کےڈائریکٹر خلیل التفکجی نے کہا کہ لیکوڈکی جانب سےغرب اردن کو اسرائیل کی قانونی عمل داری میں دینا دراصل مستقل میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا ہے۔ اس کےعلاوہ اسرائیل نےغرب اردن میں چپے چپے پر کالونیاں تعمیر کرکے عملا فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنے کی سازش کر رہی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے التفکجی نے کہا کہ صہیونی ریاست کے ویژن کے مطابق فلسطینی ریاست کا کوئی وجود نہیں۔ پورے فلسطین پر صہیونی ریاست کا قبضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست غرب اردن میں یہودی آبادی میں تیز لا کر مستقبل قریب میں غرب اردن میں یہودی کونسلوں اور سول ایڈ منسٹریشن کا نظام ختم کرکے براہ راست صہیونی ریاست کی عمل داری میں لانا ہے۔
یہودی مورخ ’مرڈ خائی کیدار‘ کا کہنا ہے کہ غرب اردن قبائل اور خاندانوں کی ریاست بن جائے گی۔ اسرائیل غرب اردن کو ایک قبائلی ریاست کے طور پر ڈیل کرے گا۔ ہر کالونی ایک قبیلے کا درجہ رکھے گی۔ یہ تجربہ سنہ 1970ء میں بھی کیا گیا تھا مگراس وقت صہیونی اس میں ناکام رہی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست ایک ایسی فلسطینی کالونیوں پر مشتمل ہوگی جس کے اطراف میں اسرائیل ہوگا۔ فلسطینی ریاست کے تمام داخلی اور خارجی راستے صہیونی فوج کی قبضے میں ہوں گے۔ اس کے مشرق میں وادی اردن، ہو جو پہلے ہی صہیونی ریاست کے نرغے میں ہے۔ مغرب میں یہودی کالونیاں اور دیوار فاصل فلسطینی آبادیوں کو گھیرے میں لیے رکھیں گی۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ یہودی کالونیوں بائی پاس سڑکوں سے ایک دوسرے سے مربوط ہوں گی۔ غرب اردن کے شرقاً، غرباً کالونیاں فلسطینی کالونیوں کو کسی بھی وقت جغرافیائی طور پر توڑ سکتی ہیں۔

آزاد فلسطینی ریاست کا تصور خطرے میں
صہیونی ریاست کی حکومتیں تواتر کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے منصوبوں پر عمل پیرا رہی ہیں۔ آج سے ربع صدی قبل جب فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے بعد صہیونی ریاست نے نام نہاد امن عمل سے وقت لیتے ہوئے یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کا سلسلہ جاری رکھا۔ آج سے بیس سال قبل غرب اردن میں یہودیوں کی تعداد ایک لاکھ پانچ ہزار تھی جو کہ اب سات لاکھ 50 ہزار تک جا پہنچ چکی ہے۔
یہ سب کچھ نام نہاد امن عمل کی آڑ میں کھیلے جانے والی سازش ہے۔ فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر بلال الشوبکی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتےہوئے کہا کہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکا کی کھلی حمایت میں دو ریاست نہیں بلکہ ایک ریاست کی عمل داری قائم کرنا ہے۔
’آلون‘ پروگرام کا نفاذ
فلسطینی تجزیہ نگار سامر عنبتاوی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل غرب اردن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیل کا ’الون‘ پروگرام نافذ کرنا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے عنبتاوی نے کہا کہ صہیونی ریاست قضیہ فلسطین کے تصفیے کی سازشوں میں سرگرم ہے۔ عالمی اور علاقائی حالات، اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کے قیام کی کوششیں اور فلسطینیوں کی صفوں میں اختلافات اور ان کی کارکردگی میں کمی اسرائیل کو اپنے جرائم کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں اس وقت صرف اسرائیل اور امریکا کی مرضی کے فیصلے مسلط کیے جا رہے ہیں۔ امریکا اور صہیونی ریاست دونوں مل کر فلسطینی قوم اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کررہے ہیں۔

عنبتاوی نے کہا کہ اس وقت فلسطین پر مسلط کردہ اسرائیلی منصوبہ چند سال قبل بھی پیش کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی کو جزیرہ سیناء میں توسیع دیتے ہوئے اسے فلسطینی ریاست کی شکل دینا تھا۔
جہاں تک غرب اردن کا تعلق ہے تو اسرائیل اسے مکمل طورپراپنی عمل داری میں لانے کے لیے سرگرم ہے۔ غرب اردن کے 60 علاقے کو یہودی کالونیوں کی وجہ سے اسرائیل میں ضم کیا جا رہا ہے۔ غرب اردن کے اطراف میں یہودی کالونیوں کا جال بچھانے اور مرکزی شاہراؤں اور بائی باس سڑکوں کے قیام کے ذریعے غرب اردن کو عملی طور پر اسرائیل میں ضم کیا جا چکا ہے۔
جہاں تک غرب اردن کے بقیہ چالیس فی صد علاقے جس میں سیکٹر A اور سیکٹر B شامل میں اسے کینٹونمنٹ کی شکل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ علاقے پہلے ہی کافی حد تک صہیونی ریاست کی عمل داری میں ہیں۔