قابض صہیونی ریاست کی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں میں دسیوں خواتین بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بعض خواتین کو اسرائیلی فوج کی جانب سے گولیاں مارکر زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا، مگر صہیونی زندانوں میں زخموں سے چور ان فلسطینی خواتین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ تو انسانی حقوق کی تنظیم ریڈ کراس کو جیل میں قید زخمی اسیرات کی دیکھ بحال اور ان کےعلاج کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ صہیونی جیلر ان کی قابل رحم حالت پر کوئی توجہ دیتے ہیں۔
صہیونی حکام کی زخمی اسیران کےحوالے سے برتی جانے والی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں ان خواتین کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے اور وہ موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اسرائیلی زندانوں میں قید خواتین صہیونی جلادوں کے ہاتھوں جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد جیسے مکروہ حربوں کا سامنا ہے۔ اسرائیلی جیل انتظامیہ جان بوجھ کر زخمی اسیرات کے معاملے میں لاپرواہی اور ٹال مٹول کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بعض زخمی خواتین کے جسم سےخون کی وافر مقدار کے نکل جانے سے وہ تکلیف اور شدید کمزوری کا شکار ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے ان فلسطینی خواتین کے حوالے سے بار بار اسرائیلی حکام کو متنبہ کرچکے ہیں مگر سفاک صہیونیوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیلوں اور تنبہیات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
اسیرات کو بدترین حالات کا سامنا
اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل زخمی فلسطینی اسیرات کو بدترین حالات کا سامنا ہے۔
’ھشارون‘ نامی قید خانے میں بند اسیرہ 17 سالہ لمیٰ البکری ٹانگوں پر گولیاں لگنے کے باعث شدید زخمی ہیں اور وہ چلنے اور اپنے سہارے نقل وحرکت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
صہیونی جیلراس کے علاج معالجے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہےہیں۔ گرفتاری کے بعد سےاب تک اسے کسی قسم کی طبی سہولت مہیا نہیں کی گئی۔
اسی جیل میں قید 46 سالہ عبلہ العدم نو بچوں کی ماں ہیں۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے اسے گرفتاری کے وقت گولیاں ماری گئی تھیں۔ اس کے سر، چہرے اور ایک کندے پر گہرے زخم ہیں۔ علاج معالجے کی سہولت سے محروم رہنے کے باعث اس کی دائیں آنکھ کی بینائی بھی جا چکی ہے، مگر مجال کہ صہیونی جیلر اس کے علاج پر توجہ دیں۔
20 سالہ اسیر شروق دویات فالج کا شکار ہیں۔ انہں بھی گرفتاری کے وقت اسرائیلی فوج نے گولیاں مار کر زخمی کردیا تھا۔ ان کے ایک کندھے میں گولی لگنے سے مرکزی شریان بھی متاثر ہے۔ وہ تکلیف کی شدت سے مسلسل چیختی رہتی ہے مگر جیلر اسے کسی قسم کی طبی سہولت فراہم نہیں کررہےہیں۔
ھشارون قید خانے میں بند 38 سالہ جیھان حشیمہ کی گرفتاری کے وقت اس کی ٹانگوں میں گولی ماری گئیں۔ کئی ماہ گذر جانے کے باوجود اسے کسی قسم کی طبی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔
24 سالہ امل طقاطقہ کو گرفتاری کے وقت اس کی ران اور سینے میں گولیاں ماری گئیں۔ ایک اسرائیلی خاتون فوجی اہلکارہ نے اسے کے زخمی سینے پر بندوق کے بٹ مارے جس کے نتیجے میں اس کے سینے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اسے فوری سرجری کی ضرورت ہے مگر صہیونی جیلر اس کے علاج معالجے میں بھی مجرمانہ لاپرواہی برت رہے ہیں۔
18 سالہ اسیرہ مرح باکیر کو گرفتاری سے قبل اسرائیلی فوج نے 13 گولیاں ماریں۔ اس کا بایاں بازو مکمل طور پرمفلوج ہے اور بعض گولیاں اب بھی اس کے جسم کے اندر ہیں۔ تکلیف کی شدت سے اکثراس کی حالت غیر رہتی ہے مگر صہیونی حکام اس کے معاملے میں لاپرواہی برت رہے ہیں۔
18 سالہ ’نوھان عواد‘ کی گرفتاری بھی ایسے ہی حالات میں ہوئی۔ اسرائیلی فوج نے عواد کی دائیں ران اور پیٹ میں گولیاں ماریں۔ 26 سالہ حلوہ حمامرہ ایک بچی کی ماں ہیں۔ اس کا جگر متاثر ہے۔ اس کےعلاوہ گردے، پھیپھڑے، آنتیں اور جسم کے کئی دوسرے کلیدی اعضاء امراض کا شکار ہیں۔
32 سالہ اسراء جعابیص کو گرفتاری کے وقت اسرائیلی فوج نے گولیاں مار کر زخمی کردیا تھا۔ اسے شدید زخمی حالت میں حراست میں لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد اسے کسی قسم کی طبی سہولت مہیا نہیں کی گئی۔
لاپرواہی نہیں منظم انتقام
فلسطینی محکمہ امور اسیران کے چیئرمین عیسیٰ قراقع کا کہنا ہے کہ زخمی فلسطینی اسیرات اور بیمار قیدی خواتین کے ساتھ مجرمانہ غفلت محض لا پرواہی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا انتقام ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صہیونی حکام اور جیلر زخمی حالت میں گرفتار خواتین کو مزاحمت کار قرار دے کران کےخلاف انتقامی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ صہیونی حکام زخمی فلسطینی مردو خواتین قیدیوں کے معاملے میں جنیوا معاہدے کی صریح خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی محکمہ اسیران اور اطبا بلا حدود کے ساتھ زخمی فلسطینی اسیرات کے علاج معالجے کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ مگر صہیونی جیلروں نے زخمی فلسطینی خواتین کے علاج میں عالمی ادارے کے ساتھ تعاون سے انکار کردیا ہے۔
فلسطینی پروگریسیو موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مصطفیٰ البرغوثی کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینی اسیران کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے وہ کھلم کھلا ہولوکاسٹ ہے۔