جمعه 02/می/2025

’شیطان صفت‘ ٹرمپ صہیونیوں کے لیے ’مسیح مخلص‘!

جمعرات 4-جنوری-2018

ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کے صدر بننے کے بعد دنیا بھر کے صہیونیوں کو ایک نیا لیڈر تومل گیا تو اس کی حماقتوں کے نتائج دنیا صدیوں تک بھگتے گی۔ صہیونی ٹرمپ کو اپنے لیے’مخلص مسیحا‘ باور کرتی ہے۔

ٹرمپ نے جب امریکا میں اقتدار ہاتھ میں لیا تو کئی صہیونی لیڈروں کو یہ کہتے سنا گیا ٹرمپ کی شکل میں ان کے لیے قدرت نے ’مسیحا‘ نازل کیا ہے۔ ٹرمپ کے اقتدار پر فائز ہونا صہیونیوں کا ’ارض موعود‘ کی طرف پیش قدمی کے کے لیے اہم قدم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹرمپ کو مسیح مخلص قرار دیتے ہیں۔

ٹرمپ کی آمد سے صہیونیوں کے نہ صرف بیانات تبدیل ہو گئے ہیں بلکہ ان کے توسیع پسندانہ منصوبوں کا بھی ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ صہیونی ریاست کے اقدامات قضیہ فلسطین کے تصفیے کے مطالبات پرمبنی ہیں۔ ٹرمپ کی آمد کےبعد فلسطینی قوم کے لیے جتنا اسرائیل خطرناک ہے اس سے کہیں زیادہ اسرائیل خطرناک ہے۔

ٹرمپ کے فیصلوں پر بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر داخلہ ’اریہ درعی‘ نے کہا کہ ٹرمپ کی آمد اسرائیل کے لیے مسیح مخلص سے کم نہیں۔ نیتن یاھو نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ناقد گذشتہ کل کی جگہ ٹرمپ کی شکل میں خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور کل ہمارے سامنے ہے۔

اسرائیل کے ایک سیاسی تجزیہ نگار ‘یوسی فارتر‘نے اخبار ’ہارٹز‘ میں شائع اپنے مضمون میں لکھا’ٹرمپ کی کامیابی سے پہلی بار ایسے لگا کہ ’ارض موعود‘ کاہمارا وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا۔

دائیں بازو کا کیمپ

فلسطین کے مقبوضہ غرب اردن کے سیکٹر ’C‘ جو علاقے کے کل 60 فی صد علاقے پر محیط کو صہیونی ریاست میں شامل کرنا اسرائیل کے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے فکرو خیال میں ہمیشہ رہا ہے۔ حال ہی میں حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ نے اپنے اس مجرمانہ فلسفے کو عملی شکل دینے کے لیے ایک نیا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی زمانی قربت میں کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ حال ہی میں اسرائیل نے معالیہ ادومیم کالونی کو القدس میں ضم کرنے کا ایک نیا قانون پیش کیا ہے۔ اس طرح القدس کو ’عظیم تر یروشلم‘ منصوبے کے تحت اریحا شہر سے ملایا جا رہا ہے۔

ماضی میں صہیونی حکام کی طرف سے سیکٹر E1 جس میں ’معالیہ ادومیم‘ کالونی قائم ہے کو القدس میں شامل کرنے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں، مگر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد تو لیکوڈ اور دیگر اسرائیلی حکمراں قوتوں نے قوتوں نے سیکٹر C سمیت تمام علاقوں کے صہیونی ریاست کے الحاق کی سازشیں تیز کردیں۔

معالیہ ادومیم روایتی کالونی نہیں بلکہ ایک بڑا شہر ہے جو غرب اردن سے شمال سےوسط کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس کے جنوبی علاقے بلند وبالا پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یوں یہ کالونی غرب اردن کو مشرق کی سمت میں القدس سے الگ کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں غرب اردن میں معالیہ ادومیم کی شمولیت کے بعد نہ صرف مشرقی بیت المقدس کی اصطلاح ختم ہوجائے گی بلکہ سنہ 1967ء کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔

کینٹونز پر مشتمل ریاست

صہیونیوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے پرجوش ہونے کی ایک وجہ وہ تصور بھی جس کے تحت وہ فلسطین کی آبادی کے بغیر رقبے کو صہیونی ریاست میں ضم کرنا ہے۔ اس طرح فلسطینی ریاست کےقیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب فلسطینی ریاست کے قیام کے تصورات ختم کرنے کی باتیں ہو رہی  ہیں۔ اگر امریکا کی حمایت سےاسرائیل غرب اردن کے سیکٹر C کو کا الحاق کرتا ہے جو کہ کل علاقے کا 60 فی صد ہے اور اس میں ایک لاکھ فلسطینی آباد ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ غرب اردن کے  بقیہ 40 فی صد علاقے پر اسرائیل خود ہی فلسطینی مملکت نہیں بننے دے گا۔

وہ اس لیے بھی اس چالیس فی صد علاقے میں بھی چپے چپے پر یہودی کالونیاں موجود ہوں گی۔ ان کے ہوتے ہوئے فلسطینی مملکت کے قیام کوششیں ویسے ہی بے معنی تصور کی جائیں گی۔

یکم جنوری دو ہزار سترہ کو اسرائیلی وزیر تعلیم نفتالی بینٹ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ٹرمپ کا اقتدار پر فائز ہونا فلسطینی ریاست کےقیام کے مطالبے کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے غرب اردن کے سیکٹر’سی‘ کو اسرائیل میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 31 دسمبر 2017ء تک ہم معالیہ ادومیم کو اسرائیل میں شامل کردیں گے۔

اھداف اور منصوبے

یہودی کالونیوں کو’سفید‘ کرنے کی اصطلاح صہیونیوں کے ہاں کافی مروج ہے۔ اس اصطلاح کا دوسرا مفہوم فلسطین میں قائم کی گئی یہودی کالونیوں کو اسرائیل میں ضم کرنا  اور پورے فلسطین پر اس طرح اپنی عمل داری اور حکومت چلانا ہے جیسے سنہ 1948ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں پر چلائی جا رہی ہے۔

اگرچہ غرب اردن میں آباد یہودی ووٹروں کی تعداد کم ہے مگر وہاں سے منتخب ہونے والے اسرائیلی ارکان کی تعداد زیادہ ہے۔ غرب اردن میں اسرائیل کے کل ووٹروں کا 11 فی صد آباد ہے۔ غرب اردن میں آباد صہیونی سب کے سب دائیں بازو کے انتہا پسندوں پر مشتمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اسرائیل کے قانون ساز اداروں میں اثرو نفوذ بھی بہت زیادہ ہے۔ صہیونی حکومت بھی ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری کا زیادہ خیال رکھتی ہے اور ان کے ساتھ کی گئی انتخابی یقین دہانیوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتی ہے۔ جو منتخب ارکان کنیسٹ غرب اردن کے ووٹروں کو مطمئن نہیں رکھ پاتے وہ نئے انتخابات میں اپنی شکست نوشتہ دیوار دیکھ رہےہوتے ہیں۔

قبلہ اول کا انہدام اور انتہائی خطرناک نتائج

حالیہ عرصے کے دوران اسرائیلی حکام کی طرف سے سامنے آنے والے موقف اور ٹرمپ کے القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ قبلہ اول کو لاحق خطرات پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ صہیونی پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ القدس کو یہودیانے کے ساتھ تیسرے مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیرکی سازشوں پرعمل پیرا ہیں۔

ٹرمپ کی آمد کے بعد اسرائیل اور دنیا بھرمیں پھیلے انتہا پسند صہیونی بالخصوص اسرائیل میں موجود ہیکل سلیمانی کے قیام کے پرچارک گروپوں کی مسجد اقصیٰ کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ گروپ خود کو عملی طور پر مزعومہ ہیکل سلیمانی کے قیام کے لیے تیار کر رہےہیں۔ بس ایک رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔ جہاں تک صہیونیوں کی طرف سے قبلہ اول کی جگہ ہیکل سلیمانی کےقیام کی سازشیں ہیں تو ان میں کوئی کمی باقی نہیں رہی ہے۔

اسرائیل کے ایک انجینیر اور شہروں کے نقشے تیار کرنے میں شہرت رکھنے والے’یورام جینزپور‘ کو تیسرے ہیکل سلیمانی کے قیام کا نقشہ تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس بد بخت نے قبلہ اول کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کا نقشہ بھی تیار کیا۔ اس نے قبلہ اول کے 144 دونم رقبے کو ہیکل سلیمانی کی جگہ ظاہر کرکے وہاں پر ایک نیا نقشہ جاری کیا۔ اس نقشے پر عمل درآمد کے لیے حکومت کی طرف سے منظوری کا انتظار ہے۔

اسرائیلی تجزیہ نگار روگل الفیر کا کہنا ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے اس کی جگہ پرہیکل سلیمانی کے قیام کی طرف رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔

اخبار ہارٹز میں لکھے ایک مضمون میں مسٹر الفیر کا کہنا ہے کہ ہیکل سلیمانی کا قیام تمام اسرائیلیوں کا اجتماعی مطالبہ ہے۔

یہ سب کچھ سنہ 1993ء میں طے پائے ایک نام نہاد اوسلو معاہدے کا شاخسانہ ہے۔ صہیونی لیڈر بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اوسلو معاہدہ ان کی استعماری تاریخ کا ایک عبقری نظریہ تھا، کیونکہ اس نام نہاد امن عمل کے ذریعے پوری دنیا کو ایک نئے فریم سے دوچار کیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد فلسطین میں یہودی آباد کاری میں جنگی بنیادوں پر تیزی لائی گئی۔ القدس اور غرب اردن، سیکٹر اے۔ بی اور سی کو صہہونی ریاست میں ضم کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ سنہ 2003ء میں غرب اردن میں قائم کی گئی اسرائیل کی دیوار فاصل کس لیے کھڑی کی گئی۔ ان سب کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ فلسطینیوں کو آزاد مملکت سے محروم کردیا جائے۔ فلسطینی ریاست کو عملا اتنا مشکل اور لا ینحل بنادیا جائے تاکہ فلسطینی اپنے وطن میں الگ ریاست کا مطالبہ کرناہی چھوڑ دیں۔ یا تو صہیونی ریاست کی غلامی قبول کریں یا وطن ہی سے نکل جائیں۔

مختصر لنک:

کاپی