اسرائیل کی سابق وزیرخارجہ زیپی لیونی اعتراف کیا ہے کہ فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر جنگ کا آپشن اسرائیل کے سود مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے خلاف طاقت کا استعمال اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اسرائیل کو غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے بجائے کوئی اورحکمت اختیار کرنی چاہیے۔
عبرانی ویب سائیٹ’وللا‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے موجودہ حکومت کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہں۔ اگر وہ غزہ کی پٹی پر چڑھائی کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ سے امن نہیں آئے گا۔
ایک سوال کے جواب میں زیپی لیونی نے کہا کہ غزہ کی پٹی کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے سفارتی جنگ لڑنی چاہیے۔ اس کے لئے اسرائیل کو جرات مندانہ فیصلے کرناہوں گے۔ ضرورت پڑنے پرحماس کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کیا جائے۔ فوج جانتی ہے کہ وہ حماس سے کس طرح نمٹے گی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو جن اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے حماس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سنہ 2008ء اور 2009ء کی جنگ میں حماس کو کچلا نہیں جاسکا۔ بعد ازاں نیتن یاھو خود بھی دو بار وزیراعظم بنے ہیں مگر انہوں خود اپنے سابقہ مطالبے پرعمل نہیں کیا۔
لیوینی نے استفسار کیا کہ اسرائیل کے پاس کون سے دستیاب آپشن ہیں۔ کیا غزہ کے خلاف جنگ ضروری ہے۔ غزہ پر جنگ مسلط کرنا وہاں کے لاکھوں لوگوں کی ذمہ داری سرلینے کے مترادف ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہیں گے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ اسرائیل وقفےوقفے سے غزہ پر چھوٹے چھوٹے حملے جاری رکھے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔میرا خیال ہے کہ غزہ میں سرحدی باڑ کے قریب رہنے والے فلسطینی زیادہ عرصے تک اس حال نہیں رہ سکتے۔