چهارشنبه 30/آوریل/2025

القدس بارے ’یو این‘ قرارداد کے بعد کرنے کے کام!

جمعہ 29-دسمبر-2017

جمعرات 21 دسمبر2017ء کو جنرل اسمبلی میں بیت المقدس کی تاریخی، دینی اور اسلامی حیثیت برقراررکھنے کے لیے ایک مسودہ قرارداد پیش کیا گیا۔ یہ قرارداد یمن اور ترکی کی طرف سے پیش کی گئی تھی جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیت المقدس سے متعلق اعلان کو مسترد کردیا گیا تھا۔ قرارداد میں زور دیا گیا تھا کہ فلسطینیوں کے سوا کوئی دوسرا فریق القدس کی قانونی حیثیت میں کسی قسم کی تبدیلی کا مجاز نہیں۔

یہ قرارداد جنرل اسمبلی کے فورم سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی۔ 129 ملکوں نے قرارداد کی مخالفت کی۔ امریکا اور اسرائیل سمیت کل 9 ملکوں نے مخالفت جب کہ 34 ممالک نے جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

امریکا کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے اقدام کے بعد جنرل اسمبلی میں قرارداد فلسطینی قوم کی فتح قرار دی جاسکتی ہے۔ یہ قرارداد سلامتی کونسل میں امریکی ویٹو کا جواب تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کےبعد فلسطینیوں، عرب ممالک اورعالم اسلام کو اہم اقدامات کرنا ہوں گے۔

تمام ممالک قرارداد کے پابند

فلسطین کی القدس اوپن یونیورسٹی میں عالمی قانون کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد الشلالدہ نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے فورم سے منظور ہونے والی قرارداد سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برابر درجہ رکھتی ہے۔ چونکہ یہ قرارداد بھاری اکثریت کے ساتھ منظور ہوچکی ہے۔ اس لیے تمام ممالک چاہے کسی نے اس کی مخالفت کی یا حمایت کی ہے وہ اس پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ تمام ممالک اس لیے بھی اس قرارداد پر عمل درآمد کے پابند ہیں کیونکہ یہ قرارداد ’ہم امن کے لیے متحد ہیں‘ کے عنوان سے پیش کی گئی تھی۔

تاہم ڈاکٹر الشلالدہ کا کہنا ہے کہ عالمی قراردادوں کی منظوری کے باوجود دنیا میں قانون کی طاقت نہیں بلکہ طاقت کا قانون رائج ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے جو امریکا اور اسرائیل کو اس قرارداد اور فلسطین اور القدس سے متعلق منظور ہونے والی تمام سابقہ قراردادوں پر عمل درآمد کا پابند بنائے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ القدس سے متعلق قرارداد کی منظوری کے بعد جنرل اسمبلی، عالمی فوج داری عدالت اور اقوام متحدہ کے تمام اداروں کو اس کی پیروی کرتے ہوئے القدس سے متعلق فلسطینی قوم، عرب اور اسلامی دنیا کے موقف کا ساتھ دینا چاہیے۔

اقوام متحدہ کی طرف واپسی

فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر شلالدہ نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو صہیونی ریاست کے ساتھ نام نہاد مذاکرات کے سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اقوام متحدہ کے فورمز سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر مذاکرات ہی مقصود ہیں تو وہ امریکا اور اسرائیل کے مزاج اور مرضی کے مطابق نہیں بلکہ بین الاقوامی آئینی قراردادوں کی روشنی میں ہونے چاہئیں۔

جہاں تک امریکی حکومت کی طرف سے القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کی بات ہے تو یہ اقدام امریکی دستور کے بھی خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو عالمی فوج داری عدالت میں پیش کرنا چاہیے۔ اسرائیلی ریاست کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں  کا معاملہ بھی کھلے بندوں اقوام متحدہ اور عالمی عدالت میں اٹھایا جانا چاہیے۔

فلسطینیوں سے مطلوب کردار

جنرل اسمبلی سے القدس کے دفاع میں منظور ہونے والی قرارداد کے بعد فلسطینی قوم کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شلالدہ نے کہا کہ فلسطینی پہلا کام اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں۔ جب تک فلسطینی قومی یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کرتے تب تک ان کی آواز عالمی سطح پر موثر نہیں ہوسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب فلسطینی خود ہی متحد نہیں ہوسکیں گے تو وہ عرب ممالک، اسلامی دنیا اور عالمی برادری کو القدس کی حمایت پر کیسے قائل کریں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ فلسطینی قوم اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے تمام طریقے اختیار کرے۔ صہیونی ریاست کا ہرسطح پر بائیکاٹ کیا جائے اور امریکی اقدام پر عمل درآمد روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔

اگر امریکا فلسطینی اتھارٹی پر مالیاتی اور اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کی دھمکی دےتو فلسطینی اتھارٹی کو اس پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ امریکی کانگریس فلسطینیوں کی مالی امداد پہلے ہی کم کرچکی ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار اور فلسطین پروگریسیو پارٹی کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ البرغوثی کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی بلا تاخیر صہیونی ریاست کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے اقدامات کرے۔ عالمی اداروں میں شمولیت اختیار کرے اور صہیونی ریاست کے جنگی مجرموں کوعالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

مختصر لنک:

کاپی