اسرائیلی پارلیمنٹ [کنیسٹ] آج بدھ کو ایک نئے مسودہ قانون پر بحث کے بعد رائے شماری کررہی ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد بیت المقدس کو فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے کسی بھی ایجنڈے سے خارج کردیا جائے گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق کنیسٹ میں پیش کردہ بل میں سفارش کی گئی ہے کہ مستقبل میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے مذاکرات یا کسی بھی سیاسی عمل میں بیت المقدس مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہوگا۔
حکومت کی جانب سے منظوری کے بعد اگر ایوان کے 120 ارکان میں سے دو تہائی اس کی حمایت کریں تو یہ قانون لاگو ہوجائے گا۔ اسی طرح مستقبل میں جب تک پارلیمنٹ کے دو تہائی ارکان بیت المقدس کے معاملے پر بات چیت کی اجازت نہ دیں اس وقت القدس پر کسی مذاکراتی ٹیم کو اجازت نہیں ہوگی۔
مذکورہ مسودہ قانون دائیں بازو کی شدت پسند مذہبی جماعت ’جیوش ہوم‘ نے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے جس کا مقصد کسی بھی مذاکراتی ٹیم کو بیت المقدس پر مذاکرات کی اجازت دینے سے روکنا ہے۔
واضح رہے کہ یہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور کیا جا رہا ہے جب حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا تھا۔ عالم اسلام اور عالمی برادری نے ٹرمپ کے اعلان کوغیرقانونی، یک طرفہ اور امن مساعی کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔