شنبه 16/نوامبر/2024

ٹرمپ کے ‘اعلان القدس‘ سے کرسمس کی رونقیں بھی ماندھ پڑ گئیں

پیر 25-دسمبر-2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قراردیے جانے کے اعلان سے نہ صرف فلسطینی مسلمان بلکہ مسیحی برادری بھی سخت صدمے سے دوچار ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ٹرمپ کے اعلان القدس کے باعث فلسطین میں کرسمس کی رونقیں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر بیت لحم کو حضرت مسیح علیہ السلام سے ایک خاص نسبت ہے۔ عیسائیوں کے عقاید کے مطابق بیت لحم  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جائے پیدائش ہے۔ اسی نسبت سے وہاں پر ایک مھد گرجا گھر بھی قائم ہے۔ عیسائی 24 اور 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی میلاد کا جشن مناتے ہیں۔ نہ صرف شہر سے باہر بلکہ بیرون ملک سے بھی زائرین خصوصی طورپر یہاں آتے، مذہبی رسومات اور دعائیہ تقریبات میں حصہ لیتے ہیں۔ مگر اس بار بیت لحم نہ ماضی جیسا میلے کا ماحول نہیں۔ باہر سے کیا یہاں مقامی مسیحی برادری کے افراد بھی کم ہی آئے ہیں۔

مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا صدر مقام تسلیم کیا ہے۔ اس کے بعد بیت لحم سمیت غرب اردن کے بیشتر علاقے میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔ دن رات شہروں میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے گھروں پر چھاپے مارتی اور شہریوں کو ہراساں کرتی ہے۔ اس کشیدہ ماحول میں کرسمسک کی تقریبات کا متاثر ہونا فطری امور ہے۔

کرسمس ٹری بھی بُجھ گیا

ماضی کی طرح اس سال مھد گرجا گھر کے صحن میں نہ تو زائرین کا رش ہے اور نہ ہی اس بات ’کرسمس ٹری‘ سے چراغا کیا گیا۔ کل اتوار کو کرسمس کے پہلے روز چند نوجوان چرچ کےاحاطے میں تصاویر بناتے دیکھے گئے یا چند پھیری والے دکاندار بابا نویل کی ٹوپیاں فروخت کرتے اور دیگر اشیاء پیش کرتے دکھائی دیئے۔

مھد چرچ کے صحن میں کرسمس ٹری کو دسمبر کے اوائل ہی میں روشن کیا گای تھا مگر چھ دسمبر کو جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا اس کے بعد سے اس درخت کو چراغاں نہیں کیا گیا۔

یہ اقدام فلسطین کی مسیحی برادری کا ٹرمپ کے متنازع فیصلے کےخلاف احتجاج کا کھلا ثبوت ہے۔

بیت لحم کے میئر انطوان سلمان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان القدس غیر منصفانہ ، غیر شفاف، غیرقانونی ارو فلسطینی قوم کے حقوق کی تقنیص ہے۔ جس دن امریکی صدر نے القدس اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا، وہ دن ہمارے لیے’یوم غم‘ ہے۔ ہم نے بہ طوراحتجاج اس کے بعد المھد گرجا گھر کے باہر کرسمس ٹری کو چراغاں کرنے کا سلسلہ بند کردیا تھا۔

بیت لحم میں آرتھوڈوکس کونسل کے رکن اغلب خوری نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتےہوئے کہا کہ ٹرمپ کے اعلان نے تمام ممالک پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کے حوالے کرنا امریکا کا نسل پرستانہ اقدام ہے۔

سیاحت پر ضرب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان القدس اہالیان فلسطین بالخصوص مسیحی برادری کی کرسمس کی خوشیاں سلب کرنے اور ان پرغم اور صدمہ مسلط کرنے کا موجب توبنا ہی مگر ٹرمپ کے اس اعلان سے فلسطینی معیشت اور سیاحت کو بھی غیرمعمولی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی عیدوں اور مذہبی تہواروں کے ایام فلسطینی معیشت کے لیے خوش گوار پیغام لے کرآتے ہیں۔ لوگ خوشی سے بھرپور تیاری کے ساتھ بازاروں کارخ کرتے اور خریداریاں کرتے ہیں مگر ٹرمپ کے اعلان کے بعد بازار بھی سنسان ہیں۔

فلسطینی وزارت سیاحت کے مطابق گذشتہ برس کرسمس کے موقع پر بیت لحم میں باہر سے دس ہزار شہری وہاں آئے۔ اس سال یہ تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ ہونے کی توقع تھی مگر ٹرمپ کے اعلان نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر سے ہزاروں عیسائی سال نو سے قبل بیت لحم کا دورہ کرنے اور کرسمس کی تقریبات میں شامل ہونے آتے ہیں۔ المہد گرجا گھر دنیا بھر کے عیسائیوں کے لیے قبلہ کا درجہ رکھتا ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق مریم بنت عمران علیھا السلام نے اسی جگہ پربیٹے حضرت عیسیٰ کو جنم دیا۔

مغربی کلینڈر کے مطابق 24 اور 25 دسمبر کو کرسمس عید منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر سے ہزاروں عیسائی حج کی ادائی کے لیے بیت لحم آتے ہیں۔

مقامی عیسائی رہ نما خوری نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے جان بوجھ کر عیسائیوں کو بیت لحم آنے سے روکا جا رہا ہے۔ نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں عیسائی برادری کو بیت لحم کےسفر سے خوف زدہ کرنے کی صہیونی پالیسی نے ہزاروں افراد کے سفر میں رکاوٹ پیدا کی اور بیت لحم کے لیے عازم سفر عیسائیوں نے اپنی بکنگ منسوخ کرائیں۔

مختصر لنک:

کاپی