امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد اعلان القدس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ امریکا سے وابستہ توقعات ختم کرتے ہوئے تنازع کے سفارتی اور سیاسی حل کے لیے کسی اور عالمی طاقت یا طاقتوں کی طرف متوجہ ہو۔
وقت کے ساتھ ساتھ امریکا نے ثابت کیا ہے کہ اس نے فلسطینیوں کے حقوق انہیں دلانے کے بجائے انہیں سلب کرنے کے حربے استعمال کیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنا قضیہ فلسطین کے وجود کو ختم کرنے کا یہ پہلا مکروہ حربہ نہیں بلکہ امریکا کے ماضی میں عزائم بھی کچھ کم خطرناک نہیں رہے ہیں۔ امریکا نے خطے کےبیشتر ممالک کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اعلان القدس جاری کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی قیادت کے پاس تنازع کے سیاسی حل کے لیے کسی قابل اعتماد ملک یا طاقت کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں۔ ذیل میں چند نکات پیش کیے جاتے ہیں۔
اعتماد کا فقدان
ماہرین اور فلسطینی تجزیہ نگاروں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے سیاسی عمل کے لیے کسی نئے ثالث کی تلاش ایک بار پھر صفر سے معاملات کو شروع کرنے کی کوش ہے۔ تجزیہ نگار وسام عفیفہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ایک نئے ثالث کو نہیں بلکہ دراصل سیاسی عمل کے از سرنو آغاز کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک عرصے تک فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن بات چیت کی نگرانی امریکا نے کی مگر اسرائیل کی ہٹ دھرمی، غیر لچک دار رویے اور ناجائز قبضے کا دائرہ مسلسل بڑھانے کے عمل نے کسی بھی امن بات چیت کو مزید پیچیدہ کیا۔
فلسطینی تجزیہ نگار 76 سالہ الحاج عبدالمعطی السید کا کہنا ہے کہ امریکا تو بہت پہلے فلسطینیوں کے لیے ناقابل اعتبار ہوچکا تھا۔ اگرچہ امریکا کی طرف سے فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی پر تنقید کی جاتی تھی مگر جب معاملہ اقوام متحدہ یا کسی دوسرے عالمی ادارے میں اٹھایا جاتا تو وہاں امریکا کا اصل مکروہ چہرہ سامنے آتا۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکا کو امن عمل کی ثالثی سونپا ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ بھیڑیے کو بکریوں کا محافظ بنا دیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے تمام صدور اسرائیل کے تحفظ اور اس کے دفاع کے عہد کے ساتھ اقتدار میں آتے اور ان سب نے حسب توفیق مسئلہ فلسطین کے ساتھ سازش اور خیانت کا ارتکاب کیا۔ تمام امریکی حکومتیں ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ رہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہماری بعض سیاسی جماعتیں امریکی بہلاوے میں آگئیں جس نے انہیں اسرائیل کے ہاتھ پر چند کوڑیوں کے عوض فروخت کرنے کی کوشش کی۔ الحاج عبدالمعطی السید نے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا ہے کہ وہ امریکا سے امیدیں لگانا چھوڑ دےاور اسرائیل کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون ختم کرے۔
امریکا فریق بن چکا
فلسطینی تجزیہ نگار وسام عفیفہ کا کہنا ہے کہ عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے بعد امریکا پر اعتماد مزید ختم ہوچکا ہے۔ امریکا اب مسئلے کےحل میں معاون نہیں بلکہ خود ایک فریق بن چکا ہے۔ فلسطینی قوم کے حقوق غصب کرنے اور لڑائی کی خندق میں فلسطینیوں کو اب امریکا کا بھی سامنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کےحوالے سے امریکی اعلان ایک خطرناک پیش رفت ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف فلسطین پر مرتب ہوں گے بلکہ پوری عرب دنیا اور عالم اسلام بھی اس سے متاثر ہوگا۔
ایک اور سرکردہ فلسطینی خلیل العمور نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ امریکا ہمارا دشمن بن چکا ہے۔ اسرائیل اور امریکا دونوں سے قطع تعلق کردیےدیا اور فلسطینی قوم اپنے حقوق کا دفاع خود کرے۔
منصوبے کا بحران
وسام عفیفہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا بحران فلسطین کے قومی پرگرام کا بحران ہے۔ فلسطینی اتھارٹی ایک اور ناکامی کی طرف بڑھنے کے لیے کسی نئے ثالث کی تلاش میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات کا تقاضا ہے کہ نہ صرف مذاکرات لائحہ عمل کو تبدیل کیا جائے بلکہ کوئی موثر، انصاف پسند اور زندہ ضمیر طاقت کو نیاثالث بنایا جائے۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی پورے سیاسی پروگرام کو قومی منطق اور سوچ کے مطابق ڈھالے، غیرملکی ایجنڈے سے خود کو دور رکھے اور فلسطینی قوم کی اساس کی بنیاد پر قومی پروگرام تشکیل دیا جائے۔
تجزیہ نگار علی البدارین کا کہنا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کو امریکا کو ثالث مقرر کرنے سے عبرت پکڑنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ابو مازن اور ان کی جماعت کے لیڈر اپنے ہاتھ بھی امریکا سے دھوتے ہیں۔ انہیں اب قوم کی طرف پلٹنا ہوگا۔
الحاجہ وضحہ السعافین نے فلسطینی اتھارٹی پرزور دیا کہ وہ اللہ اور فلسطینی قوم سےرجوع کرے۔ امریکا کو ترک کردے اور نام نہاد مذاکرات اور جھوٹ کی سیاست کےبجائے صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدو جہد شروع کرے۔
ریٹائرڈ استاد علیان التمیمی کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور اسرائیل ایک رجیم بن چکے ہیں۔ امریکا کی نگرانی میں اسرائیل سے مذاکرات نہ صرف بے سود بلکہ شر ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے۔