امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد امریکا فلسطین۔ اسرائیل امن عمل کے ثالث کا کردار کھو چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قول وفعل سے ثابت کیا ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا کے سب سے بڑے برسوں سے حل طلب مسئلے کے منصفانہ حل کے بجائے ظالمانہ حل کی راہ پر چل رہا ہے۔ صہیونی ریاست امریکا کا سب سےبڑا مفاد ہے اور امریکیوں نے جو فیصلہ کرنا ہے وہ صرف اور صرف صہیونی ریاست کے مفاد میں ہوگا۔ اس میں فلسطینیوں کے حقوق کی کوئی بات قابل قبول نہیں۔
یوں امریکا نے عملا ثابت کردیا ہے کہ وہ فلسطین۔اسرائیل تنازع کے حل کے لیے اب ثالث نہیں بن سکتا بلکہ خود تنازع اور مسئلے کا حصہ بن چکا ہے۔
امریکا سے مایوسی کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے امریکا کے متبادل کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے۔ حال ہی میں یہ خبریں آئیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے دو سفارتی مشن روس اور چین بھیجے ہیں۔ ان سفارتی مشنز کے بھجوانے کا مقصد چین اور روس کو تنازع کے حل کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن عمل کے لیے نئے ثالثوں کی تلاش بھی باعث حیرت ہے۔ آج تک اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ جتنے معاہدے، سمجھوتے، وعدے اور یقین دہانیاں کرائیں، ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا بلکہ تمام عالمی معاہدوں، سمجھوتوں اور بین الاقوامی قوانین کا صریح مذاق اڑایا گیا۔ فلسطینیوں کے ساتھ طے پائے معاہدوں کو دیوار سے دے مارا گیا۔
مفادات پہلی ترجیح
امریکی صدر کے ’اعلان القدس‘ کےبعد عالمی سطح پر پیدا ہونے والے ارتعاش کے جلو میں فسلطینی صدر کے مشیر نبیل شعث چین اور روس کے دورے پر روانہ ہوئے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے چین اور روس کی طرف متوجہ ہونے کا مقصد یہ ہےکہ تنازع کے حل کے لیے تنہا امریکی انتظامیہ پرانحصار کےبجائے عالمی طاقتوں کو متحرک کیا جائے۔
فلسطینی رکن پارلیمان حسن خریشہ اور فلسطینی تجزیہ نگاروں عدنان ابو عامر اور اسعد ابو شرح نے اس بات سے اتفاق کیا کہ روس اور چین دو ایسے ملک ہیں جن کے اپنے مفادات اسرائیل اور امریکا دونوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔
حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ روس کے نیتن یاھو کے ساتھ خوش گوار تعلقات ہیں۔ جب کہ چین بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں فلسطینیوں کے حقوق کا مقدمہ کسی باہرکی طاقت کے بجائے خود فلسطینی قوم کو لڑنا ہوگا۔۔
ابو عامر نے حسن خریشہ کے موقف کی تائید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ امریکا کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ امن عمل کی نگرانی کے لیے روس سے مدد لی جائے۔ جہاں تک کرملین سے تعاون کی توقع ہے تو ہمارے سامنے اس کے مفادات ہیں۔ صرف مفادات۔ روس کمزوروں کے مطالبے پر کبھی حرکت میں نہیں آئے گا، بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ ماسکو اور تل ابیب کے درمیان باہمی مفادات کے فروغ کی کوششیں جاری ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی لیے تواعلان القدس کیا۔ امریکا کے لیے موجودہ حالات میں ایسا کرنا بہت آسان تھا کیونکہ اس پر کسی عالمی طاقت کی طرف سے کوئی ٹھوس رد عمل نہیں آئےگا۔
تجزیہ نگار ابو شرخ کا کہنا ہے کہ بڑی طاقتیں چاہے وہ روس یو یا چین امن عمل یا فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان کسی سمجھوتے کے لیے امریکی انتظامیہ سےمدد کے حصول سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ آخر کار چین اور روس کو بھی امریکا کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔
اقوام متحدہ سے رجوع کی ضرورت
تجزیہ نگاروں ابو عامر اور ابو شرخ کا کہنا ہے کہ ہمیں نام نہاد امن عمل کی بحث ہی کو چھوڑ دینا چاہیے۔ برسوں کے نام نہاد امن عمل کے سراب سے فلسطینی قوم کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ جب تک اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے سیاسی بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ تاہم دونوں تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہےکہ فلسطینی اتھارٹی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے رجوع کرنا چاہیے۔
تینوں تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ سب سے مناسب حل فلسطینی اتھارٹی کا اقوام متحدہ سے رجوع ہے۔ اگرچہ امریکا کی ہٹ دھرمی کے برقرار رہتے ہوئے اقوام متحدہ بھی بہت سے اہم فیصلوں میں پیش رفت نہیں کرسکتی۔ سلامتی کونسل میں ایسی کتنی ہی قراردادیں ہیں جن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
ابو شرخ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ چاہے تو اپنی قراردادوں پر عالمی برادری سے عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ان میں اہم ترین قراردادیں فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور فلسطینیوں کی مسلح جدو جہد کی حمایت جیسی قراردادیں شامل ہیں۔
ابو عامر کہتے ہیں کہ عالمی اداروں سے رجوع بہترین سیاسی اور سفارتی چارہ کار ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو اپنے مدار میں بار بار چکر لگانے کے بجائے عالمی اداروں سے رجوع کرنا چاہیے۔
امن عمل مردہ گھوڑا
فلسطینی سیاست دان اور رکن پارلیمنٹ حسن خریشہ کا کہنا ہےکہ میرےخیال میں نام نہاد امن عمل اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس بے مقصد امن بات چیت کا راستہ اختیار کرنے اور وقت ضائع کرنے کے بجائےزمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے قومی مزاحمتی جدو جہد شروع کی جائے اور اسرائیل پر اندر سے دباؤ ڈالا جائے۔
ان کاکہنا ہے کہ پہلے ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم اپنے ساتھ مخلص اور سنجیدہ ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان واپس لینا ہوگا۔ اسرائیل کے ساتھ ہرطرح کے تعلقات بشمول سیکیورٹی تعاون ختم کرنا ہوگا۔ فلسطینی قوم کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فلسطینی اتھارٹی نام نہاد امن عمل کے سراب کے پیچھے بھاگتی رہی تو اس کے نتیجے فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور آزادی کی منزل اور دور ہوجائے گی۔
ابو عامر نے حسن خریشہ کے نقطہ نظر سے اتفاق کیا اور کہا کہ امریکا اور اسرائیل یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی موجودہ حیثیت ہی پر رہیں اور وہ کسی نئے اور دیر پا حل کا مطالبہ ترک کردیں۔
ابو عامر کا خیال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے اقدامات مشکل اور کمزور ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اگر امن بات چیت کی طرف جاتی ہے تو اسے کسی بھی پیش رفت کے لیے پوری قوم اور فلسطینیوں کے تمام نمائندہ طبقات کو ساتھ ملانا ہو گا۔