فلسطین کی تحریک تاریخ آزادی کی جدو جہد میں کئی ایسے موڑ آئے جنہیں آنے والا مورخ ہمیشہ یاد رکھے گا۔ فلسطینی تحریک آزادی سے وابستہ دیگر ان گنت واقعات میں ربع صدی قبل قابض صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کی اجتماعی ملک بدری کا واقعہ بھی ہمیشہ تازہ رہے گا۔
فلسطینیوں کی اجتماعی ملک بدری کا یہ واقعہ 25 سال پہلے کا ہے۔ صہیونی ریاست نے فلسطینی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے دیگر حربوں کی ساتھ فلسطینی مزاحمتی اور دینی قیادت کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ چنانچہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور اسلامی جہاد کے 415 رہ نماؤں اور کارکنوں کو فلسطین سے لبنان کے جنوبی شہر مرج الزھور بے دخل کردیا۔ گو کہ فلسطینیوں کی اجتماعی اور انفرادی ملک بدری کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا ہے مگر مرج الزھور کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے۔ یہ واقعہ جہاں ایک طرف قابض صہیونی ریاست کی سفاکیت، فلسطین دشمنی، فلسطینی حقوق پرغاصبانہ قبضے یاد دلاتا ہے وہیں جاں باز اور بہادر فلسطینی بیٹوں اور رہ نماؤں کے صبرو استقلال اور وطن واپسی کی صبر آزما جدو جہد کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔
فلسطینیوں کی اجتماعی ملک بدری صہیونی ریاست کی مریضانہ اور ہسٹیریائی پالیسی کا حصہ ہے۔ حماس کےعسکری ونگ القسام بریگیڈ نے گرفتار ایک اسرائیلی فوجی کو1992ء اس وقت قتل کردیا جب صہیونی ریاست نے گرفتار شیخ احمد یاسین کو رہا کرنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں 22 مارچ 2004ء کو اسرائیلی فوج نے شیخ احمد یاسین کو بھی ایک میزائل حملے میں شہید کردیا تھا۔
اسرائیلی فوجی کے قتل کے بعد قابض فوج نے حماس اور اسلامی جہاد کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع کیا اور قریبا 1300 رہ نماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ بعد ازاں ان میں سے 415 کو ٹرکوں میں ڈال کر جنوبی لبنان کے شہر مرج الزھور پہنچا دیا گیا۔
واپسی پر اصرار
فلسطین سے بے دخل کرکے لبنان پہنچائے گئے فلسطینیوں نے صہیونی ریاست کے اس اقدام کو مسترد کردیا۔ انہوں نے وہاں پر اپنا ایک کیمپ قائم کیا اور اسے ’مرج الزھور کیمپ‘ کا نام دیا گیا۔ دسمبر کا مہینہ اور شدید سرد علاقے میں جلا وطن کیے گئے فلسطینیوں نے مل کر ’ابن تیمیہ‘ کے نام سے ایک درسگاہ قائم کی۔
غریب الوطن کیے گئے حماس اور اسلامی جہاد کے کارکنان نے عرب اور عالمی ذرائع کی توجہ حاصل کی جس کے نتیجے میں اس وقت اسحاق رابین کی اسرائیلی حکومت کو عالمی سطح پر سخت شرمندی کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر فلسطینیوں نے مرج الزھور میں عالمی رائے عامہ اپنے حق میں کرنے کے بعد تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں بھی کام شروع کردیا۔
چونکہ ملک سے بے دخل کردہ تمام کارکنان مختلف شعبوں کے ماہر تھے۔ اس لیے انہوں نے ابن تیمیہ یونیورسٹی میں مختلف شعبوں میں تدریس کا کام شروع کردیا۔ مقامی اور اطراف کے لبنانی شہریوں نے ایک چھوٹا اسپتال قائم کیا اور مقامی شہریوں کو طبی امداد فراہم کرنا شروع کردی۔
انہوں نے اپنے امور کو بہتر انداز میں انجام دینے کے لیے ایک انتظامی لیڈرشپ قائم کی اور حماس رہ نما الشیخ عبدالعزیز الرنتیسی کو اپنا امیر کارواں بنا لیا۔ یاد رہے کہ الشیخ عبدالعزیز الرنتیسی جو پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر تھے الشیخ احمد یاسین کی شہادت کے بعد حماس کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اسرائیل دشمن نے 17 اپریل 2004ء کو انہیں شہید کر دیا تھا۔
صہیونی ریاست کے لیے خلاف توقع ’مرج الزھور‘ کیمپ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جس کے نتیجے میں نہ صرف فلسطینیوں کی اجتماعی بے دخلی بلکہ اس کے نتیجےمیں قضیہ فلسطین بھی عالمی ابلاغیات میں سر فہرست آگیا۔ عالمی اور عرب ممالک کی شخصیات نے مرج الزھور کیمپ کے دورے اور بے دخل فلسطینیوں سے ملاقاتیں شروع کردیں۔ اس کے نتیجے میں صہیونی ریاست پر دباؤ پڑا اور اسے لینے کے دینے پڑ گئے۔
حماس کی پہلی اعلانیہ کانفرنس
مرج الزھور میں رہ نماؤں کی بے دخلی نے حماس کو ایک نیا تجربہ بہم پہنچایا۔ غزہ اور غرب اردن کی قیادت کو عام حالات میں جمع کرنا مشکل تھا مگر بے دخلی نے حماس کی قیادت کو ایک جگہ جمع کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک موجود حماس کی قیادت کو مرج الزھور میں بے دخل کردہ رہ نماؤں سے ملنے اور ان کے ساتھ صلاح مشورے کا موقع دیا۔
یہ ساری صورت حال صہیونی ریاست کے لیے ایک نیا درد سر بن گئی۔ عالمی رائے عامہ بھی اسرائیل کے خلاف ہوگئی اور صہیونی ریاست کو فلسطینی رہ نماؤں کی جبری بے دخل کا اقدام واپس لینا پڑا۔
ادھر فلسطین میں صہیونی ریاست کے اقدام کے خلاف عوامی احتجاج زور پکڑ گیا۔ اس میں سب سے مشہور فلسطینیوں کا کفن پوش مارچ ہے جو سنہ 1948ء کے علاقوں کے فلسطینیوں نے شروع کیا۔ مظاہرین نے سفید کپڑے زیب تن کررکھے تھے اور انہوں نے شہادت کی آرزو کے ساتھ لبنان کی سرحد کی طرف مارچ شروع کردیا۔ صہیونی ریاست نے روایتی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا۔ نہتے مظاہرین پر آنسوگیس کی شیلنگ شروع کردی۔
دشمن جھکنے پرمجبور
فلسطین میں احتجاج، عالمی رائے عامہ کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت اور مرج الزھور میں موجود فلسطینیوں کے ساتھ بڑھتی ہمدردیوں نے صہیونی ریاست کے گھںٹے ٹیک دیے۔ امریکا نے بھی بے دخل فلسطینیوں کی واپسی کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا۔ مگر فلسطینیوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی اجتماعی بے دخلی کی پالیسی بند کرے۔ صہیونی وزیراعظم اسحاق رابین نے بے دخل فلسطینیوں کی مرحلہ وار واپسی پر آمادگی ظاہر کرلی۔
ادھر اسرائیلی عدالتوں میں صہیونی حکام نے بے دخل فلسطینیوں کے خلاف مقدمات کے قیام کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔ بعض فلسطینیوں کو پہلے ہی سزائیں دی گئی تھیں۔
اگرچہ بے دخل فلسطینیوں کی وطن واپسی تو شروع ہوئی مگر قابض صہیونی ریاست نے ایک نیا پینترا بدلا اور واپس لوٹنے والوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالنا شروع کردیا اور نہیں عدالتوں سے دی گئی سزائوں کے تحت قید کیا جانے لگا۔
غزہ کی پٹی واپس آنے والے بعض رہ نماؤں کو قاتلانہ حملوں میں شہید کیا جانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ حماس رہ نما الشیخ عبدالعزیز الرنتیسی، جمال منصور، جمال سلیم، محمود الھنود اور کئی دوسرے رہ نماؤں کو قاتلانہ حملوں میں شہید کیا گیا۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مرج الزھور کا واقعہ تاریخ تحریک آزادی کا اہم باب ہے۔ اس واقعے کے اگرچہ بعض منفی پہلو تھے مگر حقیقی معنوں میں اس سے فلسطینی تنظیموں بالخصوص حماس اور اسلامی جہاد نے بہت کچھ سیکھا۔ اس واقعے نے قضیہ فلسطین کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا۔