امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے متنازع فیصلے کے خلاف پوری دنیا میں دوسرے ہفتے بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
کل اتوار کو یورپی ملکوں امریکا اور براعظم ایشیا کے کئی ممالک میں’دفاع القدس‘ ریلیاں ، جلسے جلوس اور مظاہرے کیے گئے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یورپی ملکوں کے تین بڑے شہروں میں ہزاروں افراد نے گھروں سے نکل کر القدس کے حوالے سے امریکی صدر کے علان کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی۔
فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں امریکی صدر کے اعلان القدس کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا۔
اس کے علاوہ ہالینڈ کے شہر روٹر ڈام میں بھی سیکڑوں افراد نے ٹرمپ کے اعلان القدس کے خلاف احتجاج کیا۔ یورپی ملک آسٹریا کے شہر ویانا میں امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔ مظاہرے میں شریک شہریوں نے آزاد فلسطینی ریاست اور القدس کو اس کا دارالحکومت بنائے جانے کے حق میں نعرے لگائے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں وائیٹ ہاؤس کے قریب اعلان القدس کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ مظاہرے میں امریکا میں موجود مسلمانوں اور عرب شہریوں کے علاوہ مقامی کمیونٹی کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ادھر انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اتوار کے روز ہزاروں افراد نے مرکزی مسجد سے نکلنے والی احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ یہ ریلی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے خلاف نکالی گئی۔
ٹرمپ کے اعلان کردہ متنازع اقدام کے بعد انڈونیشیا میں یہ سب سے بڑا احتجاج ہے۔ پولیس کے اندازے کے مطابق مختلف اسلامی تنظیموں کی جانب سے منعقد اس احتجاجی ریلی میں 80 ہزار کے قریب افراد شریک تھے۔
اگرچہ یہ احتجاج پُر امن تھا تاہم خاردار تاروں کے پیچھے کھڑے پولیس اہل کاروں نے مظاہرین کو جکارتہ میں امریکی سفارت خانے کی جانب پیش قدمی سے روک دیا۔ جکارتہ میں امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے اس وقت پولیس اور فوج کے 20 ہزار اہل کار تعینات ہیں۔
انڈونیشیا کی علماء کونسل کے سکریٹری جنرل انور عباس نے اپیل کی ہے کہ تمام ممالک ڈونلڈ ٹرمپ کے اس غیر قانونی جانب دارانہ فیصلے کو مسترد کر دیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم انڈونیشی عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک ٹرمپ اپنے فیصلے کو واپس نہیں لیتے ہیں اس وقت تک ملک میں امریکی اور اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔