ترکی کے شہر استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) کے منعقدہ ہنگامی سربراہ اجلاس کے بعد جاری کردہ حتمی اعلامیے میں دنیا پر زوردیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو۔اعلامیے میں امریکا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کو اب مشرق وسطیٰ امن عمل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔
اجلاس میں شریک اسلامی ممالک کے سربراہان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو غیر ذمے دارانہ ، غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو بڑھاوا ملے گا۔
اس سے پہلے فلسطینی صدر محمود عباس نے او آئی سی کے سربراہ اجلاس میں افتتاحی تقریر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے القدس سے متعلق فیصلے کو دوسرا اعلان بالفور قرار دیا اور کہا کہ پوری دنیا کو ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم القدس پر امریکا کے یک طرفہ فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔آج کے بعد امن عمل میں ہم امریکا کے کسی کردار کو قبول نہیں کرسکتے۔انھوں نے مزید کہا کہ امریکا نے القدس کی حیثیت سے متعلق تمام سرخ لکیروں کو عبور کر لیا ہے۔
محمود عباس کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست القدس دارالحکومت کے بغیر قائم نہیں کی جاسکتی اور جب تک امریکا اپنے حالیہ اعلانات کو واپس نہیں لے لیتا،اس وقت تک ہم بھی ماضی میں طے پانے والی مفاہمتوں کے پابند نہیں ہوں گے۔انھوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک قرار داد کے ذریعے القدس پر صدر ٹرمپ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے ۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے او آئی سی کے موجودہ چئیرمین کی حیثیت سے یہ ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔اجلاس میں پچاس سے زیادہ ممالک کے سربراہان ریاست اور وزرائے خارجہ نے شرکت کی ہے۔ ترک صدر نے اپنی تقریر میں امریکا کو مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں نئے فیصلے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنا یا۔
انھوں نے کہا کہ’’ میں بین الاقوامی قانون کی حمایت کرنے والے تمام ممالک کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ مقبوضہ القدس کو فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرلیں‘‘۔
انھوں نے ٹرمپ کے گذشتہ ہفتے کے فیصلے کو اسرائیل کی فلسطینی سرزمین پر قبضے ، وہاں یہود کی آبادکاری ، فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے غیر متناسب استعمال اور ہلاکتوں ایسے اقدامات کا انعام قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل ایک قابض اور دہشت گرد ریاست ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شکایت کی کہ او آئی سی کے مسلم اقوام کی جدوجہد کے ساتھ اظہار یک جہتی کے عمل میں کوئی یکسانیت نہیں پائی جاتی ہے۔ انھوں نے پاکستان کی جانب سے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ القدس سے متعلق اپنے حالیہ فیصلے کو واپس لے ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں پر عمل درآمد کرے اور تنازع کے دو ریاستی حل کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرے۔
انھوں نے کہا کہ’’ میں پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہوں ۔ہماری پارلیمان پہلے ہی ان جذبات کا اظہار کرچکی ہے ۔ہم فلسطینی عوام کی منصفانہ جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستان نے او آئی سی اور اسلامی دنیا کے ساتھ مل کر ہمیشہ فلسطینی عوام اور موعودہ مادر وطن کے لیے ان کی جائز امنگوں کے ساتھ ہمیشہ یک جہتی کا اظہار کیا ہے ۔
’’ پاکستان اپنے اس مطالبے کا اعادہ کرتا ہے کہ 1967 ء کی سرحدوں کے اندر ایک قابل عمل اور آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس ہو۔ او آئی سی کی حیثیت سے ہمیں دو بنیادی سوالات کا جواب دینا چاہیے کہ یہ مقصد ہم کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور ہم زبانی اظہار کو عملی شکل کیسے دے سکتے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا۔
شاہد خاقان عباسی نے پھر خود ہی اپنے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے اظہار یک جہتی اور اتحاد کو فلسطین کے علاوہ دوسرے مسلم نصب العینوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال نہیں کیا ہے۔