پنج شنبه 01/می/2025

ڈونلڈ ٹرمپ کے ’اعلان القدس‘ کے اہم نکات کیا ہیں؟

پیر 11-دسمبر-2017

چھ ستمبر2017ء بہ روز بدھ تاریخ عالم بالخصوص فلسطین کی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین دن شمار کیا جائے گا۔ اس روز سیاہ کے دوران امریکا کے اسلام دشمن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا صدر مقام تسلیم کرتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔

صہیونی ریاست اوراس کے جدی پشتی پٹھو امریکا اور دنیا بھر کی صہیونی لابی کے سوا زندہ ضمیر، درد دل اور انسانیت کا جذبہ رکھنے والے لوگ ٹرمپ کے اس اعلان پر سراپا احتجاج ہیں۔

عرب ممالک اور مسلم دنیا میں ٹرمپ کے ’اعلان القدس‘ کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے ٹرمپ کےنام نہاد اعلان القدس کے اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ نکات درج ذیل ہیں۔

’مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےکہا کہ پرانے چیلنجز نئی قربت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک نئے چیلنج کوقبول کریں۔ اس لیے میں اعلان کرتا ہوں کہ القدس اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ مسلسل دو عشروں کی تاخیر کے بعد آج وقت آگیا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی حقیقت مان لی جائے۔ ان کا اشارہ سنہ 1995ء میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے اور اسرائیلی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے حوالے سے امریکی قانون سازی کی جانب تھا۔

اس قانون کا ایک آرٹیکل امریکی صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا معاملہ چھ ماہ کے لیے موخر کریں۔ سابق امریکی صدر نل کلنٹن، جارج بش اور باراک اوباما اپنے ادوار میں اس معاملے کو مسلسل موخر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ احمقانہ گمان ہے کہ ہم ایک ہی فیصلے کے تکرار کے بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔

سفارت خانے کی منتقلی

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کی تیاری شروع کرے۔ انہوں نے کہا کہ سفارت خانے کی القدس منتقلی کے لیے جلد ہی نئے معماروں، انجینیروں اور سول منصوبہ سازوں کو  بھرتی کیا جائے گا تاکہ القدس میں امریکی سفارت خانے کی نئے سرےسے بنیاد رکھی جائے۔

یہودی قوم کا دارالحکومت

ڈونلڈ ٹرمپ نےکہا کہ آج سے 70 سال پیشتر امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس وقت سے القدس اسرائیل کا دارالحکومت چلا آ رہا ہے۔ القدس کو یہودی قوم نے اپنا دارالحکومت قرار دیا ہے۔ پرانے زمانوں میں بھی القدس ہی یہودی قوم کا دارالحکومت رہا ہے۔ آج موجودہ اسرائیلی ریاست کا ہیڈ کواٹر بھی القدس ہی ہے۔ اسرائیلی کنیسٹ[پارلیمنٹ] اور سپریم کورٹ بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ القدس وہ جگہ ہے جہاں یہودی عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہودی دیوار گریہ[ مسجد اقصیٰ کے مغرب میں واقع دیوار براق] میں عبادت کرتے ہیں، عیسائی ’الجلجلہ‘ جب کہ مسلمان مسجد اقصیٰ میں عبادت کرتے اور نمازیں ادا کرتے ہیں۔

دو ریاستی حل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ فلسطینیوں اور اسرائیل کو باہمی معاہدہ کرنے اور دو ریاستی حل پربدستور اصرار کرتے ہیں۔ امریکا فریقین کے درمیان معاہدہ کرانے کے لیے ہرممکن کوششیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا فلسطین ، اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کا حامی ہے۔ مگر اس لے لیے دونوں فریقوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ القدس کے مقدس مقامات کے موجودہ اسٹیس کو برقرار رکھیں۔ ان میں جبل ہیکل اور حرم شریف خاص طور پر شامل ہیں۔

پرامن رہنے کی تلقین

ٹرمپ نے نام نہاد اعلان القدس میں تمام فریقین کو پرامن رہنے، تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے، نفرت سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے بات چیت کی خاطر نائب صدر مائک پنس جلد خطے کا دورہکریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ طویل عرصے سے خطے میں قیام امن کے لیے جاری مساعی کو آگے بڑھانے کی پابند ہے۔

مختصر لنک:

کاپی