عرب لیگ کے وزراء خارجہ اجلاس میں امریکا سے پرزور مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے کا اعلان واپس لے اور تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی روک دے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ہفتے کے روز قاہرہ میں ہونے والے عرب لیگ وزراء خارجہ اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے القدس کے بارے میں فیصلے کی شدید مذمت کی گئی اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ القدس کے بارے میں اپنا اعلان واپس لیں اور امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی روک دیں۔
عرب لیگ کے وزراء خارجہ سطح کے اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کو انتہائی خطرناک اقدام قرار دیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کا اقدام مشرق وسطیٰ کو ایک نئی تباہی سے دوچار کرے گا۔
وزراء خارجہ اجلاس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کو ’باطل‘ عالمی قوانین، سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور دیگر عالمی قراردادوں کے صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ مشرقی بیت المقدس مقبوضہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل کا کوئی حق نہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ چھ دسمبر 2017ء کو جاری کردہ امریکی صدر کی طرف سے ‘اعلان القدس‘ عالمی عدالت انصاف کے اصولوں اور وضع کردہ قواعد کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عالمی عدالت انصاف مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیل کی نسل دیوار کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے جب کہ ٹرمپ کے اعلان میں فلسطینی علاقوں میں دیوار فاصل کو آئینی جواز فراہم کیا گیا ہے۔
بائیس عرب ممالک کے وزراء خارجہ نے امریکی صدر کی طرف سے جاری کردہ اعلان القدس امن مساعی کو تباہ کرنے، کشیدگی میں اضافے، عوامی غیض وغضب کو بڑھاوا دینے، خطے کوتباہی، تشدد، افراتفری، خون خرابے اور عدم استحکام سے دوچار کرے گا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کا القدس کے بارے میں اعلان انتہائی خطرناک ہے۔ اس اعلان کے بعد خطے میں امریکی ثالثی کا کردار بری طرح مجروح ہوا ہے۔ امریکی صدر نے عالمی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے صہیونی ریاست کی طرف داری کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ امریکا قضیہ فلسطین کے منصفانہ اور عادلانہ حل کے مواقع ضائع کررہا ہے۔
عرب وزراء خارجہ اجلاس میں مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے جب خطے میں امن واستحکام مکمل طور پرآزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہے۔ اسرائیل کو ہرصورت میں سنہ 1967ء کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر جانا ہوگا۔