چهارشنبه 30/آوریل/2025

القدس کےخلاف صہیونی سازش قدم بہ قدم!

ہفتہ 9-دسمبر-2017

صہیونی ریاست نے مقبوضہ بیت المقدس کو ضم کرنے کے حوالے سے مرحلہ وارسازشوں کا سلسلہ کئی سال پہلے شروع کردیا تھا۔ صہیونی ریاست نے اس منصوبے کو 2020ء کا نام دیا اور اس پروگرام کے تحت’عظیم تر القدس‘ کو بیت المقدس اور اس کے اطراف کے علاقوں سمیت صہیونی ریاست میں ضم کرنا ہے۔ حالیہ ایام میں ہونے والی پیش رفت بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا اور تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کا اعلان صہیونی ریاست کے نام نہاد عظیم تر القدس پروگرام کا حصہ ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار اور فلسطین میں یہودی آباد کاری کے امور کے ماہر خلیل تفکجی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی غاصب ریاست سنہ 2020ء تک عظیم تر القدس کے نام نہاد منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ اسرائیل نے القدس اور اس کے اطراف میں قائم کی گئی بڑی یہودی کالونیوں غوش عتصیون، معالیہ ادومیم اور بسغات زئیف کو القدس میں اس لیے شامل کیا جا رہا ہے تاکہ القدس میں آبادی کا توازن تبدیل کرکے یہودیوں کو اکثریت اور فلسطینیوں کو اقلیت میں بدلا جاسکے۔ جب اسرائیل آبادی کا یہ توازن تبدیل کرلے گا تو اس کے لیے القدس کو صہیونی ریاست میں شامل کرنا آسان ہوگا۔

خلیل تفکجی نے بتایا کہ صہیونی ریاست نے 2020ء کی طرح ایک عظیم ترالقدس کا گلا منصوبہ 2050ء متعارف کرایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بیت المقدس میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، سڑکیں، پل، ریلوے لائنیں، ہوائی اڈے، زیرزیرمین سرنگوں کی کھدائی۔ القدس کی تمام یہودی کالونیوں کو باہم مربوط کرنا اور فلسطینی کالونیوں کو یہودی کالونیوں سے الگ تھلگ کرنا ہے۔

اس کے علاوہ اسرائیل القدس بالخصوص مسجد اقصیٰ کے اطراف میں یہودی معابد اور مذہبی مراکز کا ایک نیا نیٹ ورک بنانے کا بھی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس وقت قبلہ اول کے قریب 102 یہودی معابد ہیں۔ یہ تمام سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد اسلامی اوقاف کی غصب کی گئی اراضی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا کوئی نیا واقعہ یا اقدام نہیں بلکہ یہ صہیونی ریاست کی القدس کے حوالے سے قدم بہ قدم سازشوں کے تسلسل کی کڑی ہے۔

ذیل میں القدس کے خلاف صہیونی قبضے کے مراحل پیش کیے جا رہے ہیں۔

سات جون 1967ء

سات جون 1967ء کو اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر غاصبانہ قبضہ کیا اور کئی عرب بستیاں مسمار کرڈالیں۔ اس واقعے کے چند روز کے بعد اسرائیلی حکومت نےمشرقی بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر قبضہ مستحکم کرنے کے لیے قانون سازی سمیت دیگر اقدامات شروع کردیے۔ مشرقی اور مغربی القدس کو باہم ملانے کے لیے کنیسٹ سے قانون پاس کرایا گیا۔ بیت المقدس کی یہودی بلدیہ کی حدود میں توسیع کی گئی اور اس میں پرانے القدس اور اس کے مضافات کو بھی شامل کیا گیا۔ فلسطینی بلدیہ کونسل تحلیل کردی گئی اور اس کے ملازمین کو اسرائیلی بلدیہ میں ضمن کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی القدس بالخصوص مسجد اقصیٰ کی بنیادوں میں کھدائیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔

گیارہ جون 1967ء

گیارہ جون 1967ء کو صہیونی فوج نے مشرقی بیت المقدس میں المغاربہ کالونی کو ملیا میٹ کردیا گیا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکال باہر کیا گیا۔ اسی سال ستمبر  مین 23 ہزار فلسطینیوں کوبے گھر کردیا اور ان کی القدس کی شناخت ان سے سلب کرلی گئی۔

27 مارچ 1968ء

ستائیس مارچ 1968ء کو اسرائیلی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا کہ ’جبل البیت‘[مسجد اقصیٰ] یہودی قوم کے لیے ناقابل بحث ہے جس پر کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

سنہ 1968ء کے دیگر اقدامات

سنہ 1968ء میں صہیونی ریاست نے القدس کے اگرد یہودی کالونیوں کا ایک بیلٹ بنانے کے لیے القدس کی وسیع وعریض اراضی پر قبضہ کیا اور یہودیوں کے لیے تعمیرات شروع کردیں۔

سنہ1969ء

سنہ 1969ء مین صہیونی ریاست نےالقدس کےگرد یہودی کالونیوں کا دوسرا جال بچھانے کا منصوبہ شروع کیا۔ اس دوسرے فیز میں 15 یہودی کالونیاں شامل تھیں۔

اکیس اگست 1969ء

اکیس اگست 1969ء کو آسٹریلوی نژاد یہودی دہشت گردی مائیکل ڈینس نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگائی اور مقدس مقام کو جلانے کی ناپاک جسارت کی گئی۔ صہیونی حکومت نے اس سنگین جرم کے مرتکب مجرم کوبری قرار دینے کے لیے اسے ذہنی مریض قرار دیا۔

اگست 1980ء میں اسرائیلی کنیست نے ‘بنیادی قانون‘ کےعنوان سے ایک نیا بل پاس کیا۔ اس قانون میں قرار دیا گیا کہ متحدہ القدس اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا۔ اسی میں اسرائیلی صدور اور وزراء اعظم کی رہائش گائیں، کنیسٹ اور سپریم کورٹ کی عمارتیں قائم کی جائیں گی۔

8 اکتوبر 1990ء

آٹھ اکتوبر سنہ 1990ء کو دہشت گرد اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر نہتے نمازیوں کا بے دریغ قتل عام کیا جس کے نتیجے میں بیس نمازی شہید اور دسیوں زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل فلسطینی نمازیوں نے یہودی انتہا پسندوں کو قبل اول پر دھاووں سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ یہ یہودی شرپسند قبلہ اول میں گھس کر تیسرے مزعومہ ہیکل سلیمانی کا سنگ بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔

سنہ 1994ء

سنہ 1994ء اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی اور اریحا کے علاقوں سے متعلق ایک قانون کی منظوری دی، یہ قانون 13 ستمبر 1993ء کو طے پائے اوسلو معاہدے کا حصہ تھا۔ اس نئے قانون میں قراردیا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی القدس میں کسی قسم کا تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتی کیونکہ بیت المقدس خالصتا اسرائیلی ریاست کا حصہ ہے۔

25ستمبر 1996ء

پچیس ستمبر 1996ء کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کےدور میں 450 میٹر لمبی ایک سرنگ تیار کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہ سرنگ مسجد اقصیٰ کی بنیادوں سے گذارنے اور القدس کے اطراف کی اسلامی املاک کو غصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نام نہاد سرنگ کے خلاف فلسطینی قوم نے ’سرنگ بیداری تحریک‘ شروع کی۔ اس تحریک کے دوران 63 فلسطینیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور 1600 زخمی ہوئے۔

28 ستمبر2000ء

اس تاریخ کو فلسطین میں تحریک انتفاضہ الاقصیٰ شروع ہوئی۔ یہ تحریک ارئیل شیرون کی مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج تھا۔ شیرون کے اقدام کے خلاف بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے داخلے کے خلاف نئی قدغنیں عاید کی گئیں جن میں دیوار فاصل کا قیام بھی شامل ہے۔

سنہ 2003ء

2003ء میں صہیونی حکومت نے القدس میں دیوار فاصل کی تعمیر کے لیے نیا منصوبہ شروع کیا۔ القدس اور اس کے اطراف میں تعمیر کی گئی نسل دیوار کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینیوں کو القدس سے باہر کردیا گیا۔

ستائیس اکتوبر 2014ء

ستائیس  اکتوبر2014ء کو اسرائیلی کنیسٹ نے ایک نئے قانون کی منظوری دی جس کے تحت مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان زمانی اور ماکنی اعتبار سے تقسیم کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

جولائی 2017ء

جولائی 2017ء کو مسجد اقصیٰ میں ایک فدائی حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نماز اور اذان دینے پر پابندی عاید کردی۔ اس کے بعد صہیونی فوج نے مسجد اقصیٰ میں خفیہ کیمرے اور میٹل ڈیٹکٹر نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔ صہیونی حکومت اور فوج کے اس اقدام پر فلسطینی عوام نے شدید احتجاج کیا۔ فلسطینیوں کے احتجاج کے بعد صہیونی ریاست 27 جولائی 2017ء کو تمام رکاوٹیں ختم کردیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی